1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجر بچے پيٹ بھرنے کے ليے جسم بيچنے پر مجبور

عاصم سلیم
19 فروری 2017

بلغراد کے مرکزی ريلوے اسٹيشن کے قريب واقع ايک خالی گودام ان دنوں پاکستان، افغانستان، عراق اور شام سے تعلق رکھنے والے مہاجر بچوں کی رہائش گاہ بنا ہوا ہے۔ يہ بچے اپنا پيٹ پالنے کے ليے جسم بيچنے پر مجبور ہو گئے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2XrQO
Serbien Flüchtlinge in Belgrad
تصویر: Getty Images/S. Stevanovic

مشرقی يورپی ملک سربيا کے سب سے بڑے شہر بلغراد کے اس گودام کے گرد و نواح ميں کئی بالغ اور نابالغ تارکين وطن سردی سے بچنے کے ليے کمبلوں ميں لپٹے آگ کے گرد بيٹھے دکھائی ديتے ہيں۔ چند ايک کی عمريں دس برس کے لگ بھگ بھی ہيں۔ سخت سردی، بھوک اور نا اميدی کے سبب نوبت يہاں تک آ گئی ہے کہ اب يہ بچے اپنا پيٹ بھرنے کے ليے جنسی سرگرميوں ميں ملوث ہو گئے ہيں۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والا سولہ سالہ نويد بتاتا ہے کہ اکثر لوگ آتے ہيں اور بظاہر بے وقوف يا نابالغ دکھائی دينے والے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہيں۔ نويد، جو اپنا حقيقی نام بيان نہيں کرنا چاہتا، مزيد بتاتا ہے کہ لوگ آ کر بچوں سے دريافت کرتے ہيں کہ ان کی کيا ضروريات ہيں اور انہيں کتنی رقم چاہيے۔ اور رقم ادا کر کے انہيں کچھ دير کے ليے ساتھ لے جاتے ہيں اور ان کا جنسی طور پر استعمال کرتے ہيں۔ اس کے بقول چند مرد تو بچوں کے ساتھ جنسی افعال کے بدلے دو ہزار يورو تک کا معاوضہ ادا کرنے کو تيار ہوتے ہيں۔

Serbien Flüchtlinge in der Nähe von Belgrad - Warteschlange für Essen
تصویر: Reuters/M. Djurica

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق سربيا ميں اس وقت قريب 7,700 مہاجرين مقيم ہيں۔ ان ميں بھاری اکثريت افغان تارکین وطن کی ہے، جو شہر کے مختلف حصوں ميں خالی گوداموں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ امدادی تنظيم ’سيو دا چلڈرن‘ کے اندازوں کے مطابق سربيا ميں مہاجرين کی مجموعی تعداد کا قريب دس فيصد حصہ نابالغ، تنہا سفر کرنے والے مہاجر بچوں پر مشتمل ہے۔ ان بچوں ميں افغانستان کے علاوہ پاکستان، عراق اور شام سے تعلق رکھنے والے بچے بھی شامل ہيں، جو گزشتہ برس سربيا پہنچے اور اس وقت سے ہی وہاں قيام پذير ہيں۔

’سيو دا چلڈرن‘ کے مطابق اسے بچوں کی جانب سے جنسی افعال کی رپورٹيں موصول نہيں ہوئيں تاہم خبر رساں ادارے تھومسن روئٹرز فاؤنڈيشن نے اس رپورٹ کے ليے کيمپ ميں موجود متعدد بچوں سے انٹرويو ليے اور حقائق تک پہنچنے کی کوشش کی۔ افغان مہاجر نويد کے ايک ساتھی علی نے نيوز ايجنسی سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جسم بيچنے کے ليے بچوں کو قصوروار قرار نہيں ديتا۔ ايک مترجم کی مدد سے اس نے اپنی بات کچھ يوں بيان کی، ’’بچے يہاں خالی پيٹ کئی راتيں کاٹتے ہيں۔ يہاں موسم بھی کافی سرد ہے اور يہ بچے خالی ہاتھ ہيں۔ انہيں بس يہی لگتا ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہيں۔‘‘

نويد اور علی جيسے کئی بچے برفباری، سرحدی بندشوں اور رقوم کی کمی کی وجہ سے مغربی يورپی ممالک ہجرت نہيں کر پائے اور يوں سربيا ميں پھنس کر رہ گئے۔ بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ايجنسی يو اين آئی سی ای ايف کے مطابق بچے بھی يورپ ميں ايک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے کے ليے انسانی اسمگلروں پر انحصار کرتے ہيں اور انہيں کسی بھی سفر کے ليے موقع پر ہی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ ايسے بچوں کو تشدد اور جنسی جرائم جيسے خطرات لاحق رہتے ہيں۔