1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ميانمار ميں طالبعلم رہنماؤں کی رہائی

14 فروری 2012

سابق برما اور آج کے ميانمار ميں کئی عشروں سے قائم فوجی حکومت کے خلاف کئی بغاوتيں ہوئی تھيں۔ 1988 اور 2007 کی بغاوتوں ميں بھی بدھ بھکشؤوں کے علاوہ طلبا نے بڑھ چڑھ کر حصہ ليا تھا۔ اُس زمانے کے گرفتار طلبا اب آزاد ہيں ۔

https://p.dw.com/p/1433G
ميانمار: رہا ہونے والے سياسی قيديوں کے عزيزواقارب محو انتظار
ميانمار: رہا ہونے والے سياسی قيديوں کے عزيزواقارب محو انتظارتصویر: AP

ميانمار ميں رہا ہونے والے سابق طالبعلم رہنماؤں کی عمريں 20 سے 25 سال کے درميان ہيں۔ سن 2007 کے ’زعفران انقلاب‘ ميں اُنہوں نے بدھ بھکشؤں کے ساتھ مل کر فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کيا تھا۔ يہ چار سابق طالبعلم رہنما ابھی تين ہفتے پہلے ہی رہا ہوئے ہيں اور اس ليے محتاط بھی ہيں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سابق رنگون اور آج کے ينگون کے ايک کيفے ميں جہاں زيادہ تر نوجوان آتے ہيں، بالکل پچھلے کونے ميں بيٹھتے ہيں۔ 23 سالہ ڈی نيئين لنھ نے کہا: ’’وہ ايک بہت برا وقت تھا۔ ميرے والد بھی قيد ميں تھے۔ شروع ميں ہميں مارا پيٹا بھی جاتا تھا ليکن بعد ميں عالمی دباؤ کی وجہ سے حالات کچھ بہتر ہو گئے تھے۔‘‘

آنگ سان سو چی
آنگ سان سو چیتصویر: AP

ڈی نيئين لنھہ کے والد 1988ء کی بغاوت کے قائدين ميں سے تھے۔ ان کا تعلق ’88 کے اسٹوڈنٹس گروپ‘ سے تھا۔ ان ميں سے بہت سوں نے 20 سال تک جيل ميں گزارے ہیں۔ ڈی نيئين لنھ کے دادا نے 1990ء ميں آنگ سان سوچی کے ساتھ مل کر انتخابات ميں کاميابی حاصل کی تھی لیکن انہيں گرفتار کر کے جيل ميں ڈال ديا گيا جہاں وہ انتقال کر گئے۔ اس زمانے کے طالبعلم ليڈر اب تقريباً 50 سال کے ہيں۔ اُنہوں نے اپنی رہائی کی خوشی ميں ايک تقريب منعقد کی جس ميں لنھ کے والد سو سو لن نے کہا: ’’ميرا بيٹا اور ميں، ہم بہت لمبے عرصے کے بعد ملے ہيں۔ اب ميں بہت ہی خوش ہوں۔‘‘

ايک طالبعلم ليڈر کو نائنگ رہائی کے بعد
ايک طالبعلم ليڈر کو نائنگ رہائی کے بعدتصویر: picture-alliance/dpa

سوسولن کو اب طويل قيد کے بعد دل کے مرض کا علاج کرانا ہے۔ ڈی نيئين لنھ نے بتايا کہ ملک بھر ميں سياسی قيديوں کی رہائی پر بہت خوشی پائی جاتی ہے اور اُس کی والدہ بھی بہت خوش ہيں۔ ليکن ابھی سارے قيدی رہا نہيں ہوئے ہيں۔

رپورٹ: اُوڈو شمٹ، سنگاپور/ شہاب احمد صديقی

ادارت: افسر اعوان