1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ميانمار، معيشت کا حال اور ممکنہ روشن مستقبل

8 فروری 2012

ميانمار کا قانونی نظام کاروبار کے لیے انتہائی ناسازگار ہے۔ اقتصادی شعبے میں حالیہ اصلاحات کے بعد بھی حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور مسلسل پانچویں مرتبہ اس ملک کو سرمایہ کاری کے لیے غیر موزوں ترین قرار دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/13zIN
تصویر: AP

کاروباری حالات کا تجزیہ کرنے والے برطانوی گروپ ’ميپل کروفٹ‘ کی ايک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں کے دوران میانمار میں ہونے والی اصلاحات کے باوجود ابھی بھی وہاں کاروباری حالات بہت نامناسب ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر بين الاقوامی سرمايہ کاروں کو ’قانونی تحفظ‘ فراہم کرنے کی بات کی جائے تو میانمار دنيا بھر ميں سب سے پیچھے ہے۔ يہی وجہ ہے کہ رپورٹ ميں سرمايہ کاروں کو محتاط رويہ اختيار کرنے کی ہدايت دی گئی ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ کاروباری مشکلات کے حوالے سے تیار کی جانے والی اس ايک سو ستانوے ممالک کی لسٹ میں ميانمار سرفہرست ہے۔

دوسری جانب رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ حاليہ دنوں ميں سياسی اصلاحات اور پابندياں ہٹائے جانے کے امکانات کے باعث ميانمار مستقبل ميں تيل اور گيس کے سيکٹر سے تعلق رکھنے والی کمپنيوں کے ليے سازگار مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ توانائی کے وسائل سے مالا مال مشرق وسطٰی اور شمال افريقی ممالک ان دنوں غير يقينی صورتحال کا شکار ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ ميانمار کے ’ہائيڈرو کاربن ريسورسز‘ بين الاقوامی طور پر سرمايہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہيں۔ البتہ رپورٹ ميں يہ بھی واضع کيا گيا ہے کہ ميانمار کو مکمل طور پر اپنے کاروباری ’پوٹينشل‘ سے مستفيد ہونے کے ليے انضباطی نظام ميں آزادی اور شفافيت کے ساتھ ساتھ سرمايہ کاروں کے حوالے سے قوانين ميں نرمی پيدا کرنی ہوگی۔

ميانمار کے صدر Thein Sein ہيں
ميانمار کے صدر Thein Sein ہيںتصویر: picture-alliance/dpa

ميانمار ميں نومبر 2010 ء ميں ہونے والے متنازعہ انتخابات کے بعد اقتدار ميں آنے والی حکومت نے متعدد مثبت اقدامات اٹھائے ہيں جس کے نتيجے ميں بين الاقوامی طور پر ملک کی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ ملک ميں جاری اصلاحاتی عمل بين لااقوامی سرمايہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سرمايہ کار بھارت اور چين کے درميان واقع قدرتی ذخائر سے مالا مال اس ملک ميں کاروباری سرگرميوں کے خواہشمند نظر آتے ہيں۔ البتہ بينکاری کے نظام ميں خامياں، بين الاقوامی سرمايہ کاری کے حوالے سے قانون کی غير موجودگی اور کاروباری ڈھانچے کی کمزروی چند ايسی خامیاں ہيں جو ميانمار کی اقتصادی ترقی کی راہ ميں رکاوٹ بنی ہوئی ہيں۔

اس سال مجموعی قومی پیداوار ميں 5.5 فيصد کی ترقی ممکن ہے
اس سال مجموعی قومی پیداوار ميں 5.5 فيصد کی ترقی ممکن ہےتصویر: AP

اسی سال کے آغاز ميں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی ايک رپورٹ ميں بھی ميانمار کی پيداواری صلاحيت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گيا ہے کہ 2011ء اور 2012ء کے ليے ميانمار کی مجموعی قومی پیداوار میں 5.5 فيصد تک ترقی ہو سکتی ہے، جس کے آئندہ سال 6 فيصد تک پہنچنے کے بھی امکانات ہیں۔ رپورٹ ميں مزيد کہا گيا ہے کہ اپنی نوجوان افرادی قوت، قدرتی وسائل اور ديگر وجوہات کی بنا پر ميانمار ايشياء ميں ايک طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

رپورٹ: عاصم سليم

ادارت : عدنان اسحاق