مون سون کی پیشن گوئی اب سمندری روبوٹ کریں گے
14 جون 2016اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر ایک ہوائی جہاز، جس پر سائنسی آلات نصب ہوں گے، بھیجا جائے گا اور یہ جہاز خلیج بنگال میں موسمیاتی تبدیلیوں کی پیمائش کرے گا۔ یہ مون سون کی پیشن گوئی کے حوالے سے کئی ملین پونڈ کی لاگت سے شروع کی جانے والی تحقیق کا ایک حصہ ہے۔ مون سون بارشوں کے بارے میں بہتر پیشن گوئی سے بھارت کے اُن 200 ملین سے زائد کسانوں اور زراعت کے پیشے سے منسلک افراد کے معیار زندگی میں بہتری لائی جا سکے گی، جنہیں تباہ کن خشک سالی کا سامنا ہے۔
برطانیہ کی ایسٹ انگلیا یونیورسٹی کے سائنسدان آئندہ ہفتے ایک بھارتی بحری جہاز کے ذریعے سات روبوٹس پانی میں چھوڑیں گے، جن سے یہ پتہ لگایا جا سکے گا کہ سمندر کا اتار چڑھاؤ کس طرح مون سون کی بارشوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
دوسری جانب اسی وقت، بھارت کی’ یونیورسٹی آف ریڈنگ اینڈ کلائمیٹ‘ سے موسمیات کے ماہرین جنوبی شہر بنگلور سے روانہ ہوئے ہیں، جو ایک ہوائی جہاز پر نصب مختلف آلات کے ذریعے ہوا میں گرمی اور نمی کی پیمائش کریں گے۔
خلیج بنگال میں استعمال کیے جانے والے روبوٹس میں کمپیوٹر نصب ہیں اور یہ دیکھنے میں چھوٹی چھوٹی پیلے رنگ کی آبدوزوں کی طرح ہیں۔
یہ روبوٹس خلیج کے جنوبی حصے میں ایک ماہ کے دورانیے میں پانی کے بہاؤ، کھارا پن اور درجہ حرارت کی جانچ کریں گے۔ اس تحقیق کے سر براہ ایڈرین میتھیوز نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ، ’’بھارت میں مون سون کے بارے میں پیشن گوئی مشکل ہے، یہ ایک پیچیدہ موسمی نظام ہے اور ان موسمی عوامل کو اب تک نہ تو سمجھا جا سکا ہے اور نہ ہی سائنس میں کہیں ان کا ریکارڈ درج ہے۔ آج تک مون سون کے موسم کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر ایسے تجربات نہیں کیے گئے۔ یہ اپنی جگہ ایک انقلابی منصوبہ ہے۔ ‘‘
بھارت میں نصف سے زائد زرعی اراضی کے لیےآبپاشی کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں فصلوں کو پانی دینے کے لیے مکمل انحصار جون سے ستمبر تک ہونے والی سالانہ بارشوں پر کیا جاتا ہے۔ بھارت میں آنے والی مون سون جس کا پھیلاؤ بحیرہ ہند سے خلیج بنگال تک ہوتا ہے، کی اگر طویل المیعاد اور صحیح طور پر پیشن گوئی کی جائے تو لاکھوں کسانوں کو خشک سالی اور سیلابی صورت حال کے حوالے سے بہتر طور پر تیار کیا جا سکتا ہے۔
سیٹیلائٹ کے سگنلز کے ذریعے سائنسدانوں کو فراہم کردہ ان معلومات سے سمندر کے کمپیوٹر نمونے تخلیق کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ سمندر کس طرح بھارت کے موسم اوربارشوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بھارت میں مون سون کو سمجھنے کے لیے آٹھ ملین پونڈ کی لاگت سے عمل میں لائی جانے والی یہ تازہ ترین کوشش ہے جہاں موسمیات کے ماہرین اس کے وقت آغاز اور شدت کے متفرق ریکارڈ رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت کو سن 2009 میں گزشتہ کئی عشروں کی بد ترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے معمول کی مون سون کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔
رواں سال اپریل میں جرمنی کے محققین نے کہا تھا کہ انہوں نے مون سون کے آغاز کی صحیح تر پیشن گوئی کا ایک طریقہ وضع کر لیا ہے جوعلاقائی موسمی ڈیٹا کے تجزیے پر مبنی ہے۔