1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کا دورہء جرمنی: آزاد تجارتی معاہدہ بھی ایجنڈے پر

مقبول ملک سری نیواس مازُومدارُو
28 مئی 2017

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اگلے ہفتے جرمنی کا جو دورہ کر رہے ہیں، اس کے ایجنڈے میں نئی دہلی کا یورپی یونین کے ساتھ ممکنہ آزاد تجارتی معاہدہ بھی شامل ہے۔ یہ دورہ جرمن بھارتی حکومتی مشاورت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

https://p.dw.com/p/2dhez
Deutschland Indien Angela Merkel und Narendra Modi in Berlin
تصویر: AFP/Getty Images/T. Schwarz

اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے سری نیواس مازُومدارُو نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس دورے کے دوران مودی کی کوشش ہو گی کہ وہ جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں کے رہنماؤں کے ساتھ اپنی بات چیت میں یورپی کاروباری اداروں کو اس امر کا قائل کر سکیں کہ بھارت غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک اچھی منزل ہے اور خاص طور پر جرمن کاروباری اداروں کو زیادہ بڑی تعداد میں بھارت کا رخ کرنا چاہیے۔

اپنے اس چار ملکی یورپی دورے کے لیے نریندر مودی نئی دہلی سے پیر انتیس مئی کو روانہ ہوں گے اور اس دوران وہ جرمنی کے علاوہ فرانس، اسپین اور نئی دہلی کے ایک اہم اسٹریٹیجک پارٹنر ملک روس بھی جائیں گے۔ جرمنی میں دو روزہ قیام کے دوران مودی کے ساتھ ان کی کابینہ کے کئی وزراء بھی ہوں گے اور بہت سے بڑے بھارتی کاروباری اداروں کی سرکردہ شخصیات بھی۔

جرمن چانسلر بھارت میں انسانی حقوق کے لیے کھڑی ہوں، پیپلز واچ

بھارتی وزیر اعظم مودی کا دورہ جرمنی

جرمن اور بھارتی ذرائع کے مطابق نریندر مودی اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی ملاقات آئندہ منگل کے روز ہو گی اور اس دوران گفتگو کے اہم ترین موضوعات دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری ہوں گے۔

تجارتی شعبے میں وزیر اعظم مودی کی کوشش یہ ہو گی کہ وہ اس حوالے سے جرمن سربراہ حکومت کی حمایت حاصل کر سکیں کہ بھارت اور یورپی یونین کے مابین ممکنہ آزاد تجارتی معاہدہ جلد از جلد طے پا جانا چاہیے۔

Indien Angela Merkel und Narendra Modi in Neu-Delhi
نریندر مودی اکتوبر دو ہزار پندرہ میں نئی دہلی میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھتصویر: Reuters/A. Abidi

مودی کے جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں کے اس دورے کے بارے میں بھارتی حکومت میں انسانی وسائل کی ترقی کے نگران وزیر پرکاش جوادیکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مودی حکومت کی توجہ کا محور ملک کی ترقی ہے۔ اب جب کہ مودی ایک حکومتی وفد کے ساتھ جرمنی جا رہے ہیں، تو آپ دیکھیں گے کہ اس دوران ہونے والی بات چیت کتنی مفید رہتی ہے۔ نئی دہلی اور برلن کے مابین اس وقت بھرپور تعاون جاری ہے۔‘‘

اس دورے کے دوران جو دیگر اہم موضوعات زیر بحث آ سکتے ہیں، وہ دفاعی شعبے میں تعاون، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ کوششیں اور جرمن اور ہندی زبانوں کو ایک دوسرے کے ملکوں میں مزید ترقی دینے کی کوششیں ہیں۔

ترک صدر ایردوآن بھارت کے دورے پر

نوسالہ بھارتی لڑکی نے مودی حکومت پر مقدمہ کر دیا

ٹیررازم نہیں ٹُورازم، کشمیری نوجوانوں کو مودی کا نیا پیغام

نریندر مودی چانسلر میرکل کے ساتھ اپنی بات چیت کے بعد اسی روز دونوں ملکوں کے سرکردہ کاروباری رہنماؤں کے ایک اجلاس سے خطاب بھی کریں گے، جس دوران ان کا زور اس بات پر ہو گا کہ بھارت ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے اور جرمن اداروں کو بھارت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔

Deutschland Narendra Modi und Angela Merkel auf der Hannover Messe
نریندر مودی کی ’میک اِن انڈیا‘ مہم کے لیے بھارت میں زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری بہت ضروری ہےتصویر: Reuters/W. Rattay

بھارتی وزیر اعظم کے لیے یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اقتصادی طور پر اپنی ’بھارت میں تیار کرو‘ کی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مہم کے تحت زیادہ سے زیادہ غیر ملکی اداروں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ بھارت میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے مقامی منڈی کے لیے اپنی مصنوعات وہیں تیار کریں۔ اس پس منظر میں مودی کی ’میک اِن انڈیا‘ مہم کے لیے بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور بھی ضروری ہے۔

جہاں تک دونوں ملکوں کے مابین تجارتی اور کاروباری روابط کا تعلق ہے تو جرمنی یورپی یونین میں بھارت کا اہم ترین تجارتی ساتھی ملک ہے۔ 2016ء میں دونوں ملکوں کے مابین مصنوعات اور خدمات کے شعبوں میں تبادلے کا مجموعی حجم 17.42 بلین یورو یا 19.4 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا۔

اس کے علاوہ بھارتی اقتصادی منڈی میں اس وقت قریب 1800 جرمن کمپنیاں بھی اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ تعداد اس لیے بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ کئی مغربی اداروں کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبار کے امکانات کافی حوصلہ افزا ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارتی معیشت میں ترقی کی سالانہ شرح چھ سے لے کر سات فیصد تک بنتی ہے اور یہ سالانہ اقتصادی ترقی کی وہ شرح ہے، جو یورپ اور شمالی امریکا کی زیادہ ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ ہے۔