منشیات کے استعمال اور اس کی اسمگلنگ کی روک تھام کا عالمی دن
26 جون 2012ہیروئن ، کوکین اور نشہ آور دیگر چیزوں کے استعمال سے سالانہ دو لاکھ افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کی رپورٹ کے مطابق افغانستان 2011ء میں بھی دنیا بھر میں افیون کی کاشت کے حوالے سے پہلے جبکہ میانمار دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم گزشتہ سالوں کی نسبت 2011ء میں افغانستان میں افیون کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے۔
2011 ء میں دنیا بھر میں افیون کی پیداوار سات ہزار ٹن رہی ۔ اسی عرصے کے دوران افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 61 فیصد اضافہ ہوا۔ 2010 ء میں افغانستان میں تین ہزار چھ سو ٹن جبکہ 2011 ء میں پانچ ہزار آٹھ سو ٹن ٹن افیون کاشت کی گئی۔
پاکستان میں یو این او ڈی سی کے نمائندے جرمی ڈگلس کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے والی ہیروئن کا 45 فیصد پاکستان کے راستے دنیا کے دیگر ممالک کو اسمگل کیا جا رہا ہے۔ اس طرح افغان منشیات کی اسمگلنگ کے لیے پاکستان سب سے بڑی راہداری بنا ہوا ہے۔
منشیات کے اس کاروبار سے جڑی رقوم کے بارے میں جرمی ڈگلس نے بتایا: ’’اگر آپ اندازہ لگائیں کہ ہیروئن کی گلوبل مارکیٹ 70 ارب ڈالر کی ہے تو اس میں سے 30 ارب ڈالر کی ہیروئن افغانستان کے راستے پاکستان اسمگل کی جاتی ہے، جس کا زیادہ حصہ مغربی یورپ کے ملکوں کو سسمگل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘
پاکستان میں افیون کی پیداوار کے بارے میں یو این او ڈی سی کے نمائندے نے بتایا کہ اس وقت یہاں انتہائی قلیل پیمانے پر بلوچستان اور فاٹا کے کچھ حصوں میں افیون کاشت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یو این او ڈی سی حکومت پاکستان اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان سے منشیات کی اسمگلنگ اور تیاری کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعاون سے قومی انسداد منشیات پالیسی اور منشیات پر قابو پانے کے پانچ سالہ ماسٹر پلان نافذ کیا جا رہا ہے۔ منشیات کے خلاف عالمی دن کے موقع پر اپنے الگ الگ پیغامات میں وفاقی وزیر انسداد منشیات خدا بخش راجڑ اور وفاقی سیکرٹری جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان افیون کی پیداوار اور منشیات کی اسمگلنگ کے مکمل خاتمے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تا کہ عسکریت پسندوں اور ڈرگ مافیا کی سماجی اور اقتصادی رگ کاٹ دی جائے۔
حکام کے مطابق پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی درست تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے رواں سال کے آخر پر ایک سروے بھی کیا جائے گا۔
منشیات کی روک تھام کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ ڈاکٹر مبین رحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد کا فی الحال درست طور پر اندازہ تو نہیں لگایا جا سکتا لیکن اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہو گا۔ انہوں نے کہا: ’’جو 2007 ء کی سروے رپورٹ ہے اس کے مطابق پاکستان میں ہیروئن کے عادی چھ لاکھ 25 ہزار افراد ہیں جو کسی بھی ملک کے لیے بہت زیادہ تعداد ہے اور کل آبادی کا اعشاریہ سات فیصد جو بالغ آبادی ہے، 15 سے 65 سال تک وہ اس کا استعمال کرتی ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ چھ لاکھ 25 ہزار میں سے ایک لاکھ 25 ہزار انجکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے 27 فیصد ایچ آئی وی پازیٹو ہیں اور 98 فیصد کو ہیپاٹائٹس سی کا مرض لاحق ہے۔تو یہ وہ حالات ہیں جن سے منشیات کے استعمال میں اور بھی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہے جو آج سے کچھ عرصہ قبل نہیں تھیں۔‘‘
یو این او ڈی سی کے نمائندے جرمی ڈگلس کے مطابق افغانستان سے پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والی منشیات مقامی طور پر بھی استعمال کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں خاص طور پر نوجوانوں میں نشے کی عادت بڑھی ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: ندیم گِل