1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملک بدری کے بعد پناہ گزين کن حالات سے گزرتے ہيں؟

عاصم سلیم Wesley Dockery
7 فروری 2018

پناہ گزينوں کے ليے سرگرم امدادی اداروں نے اپنی ايک تازہ رپورٹ ميں شامی مہاجرين کی ملک بدری کے بعد انہيں درپيش حالات سے خبردار کيا ہے۔ رپورٹ ميں زور ديا گيا ہے کہ واپسی کے بعد تارکين وطن کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/2sE32
Griechenland Flüchtlingskind
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

اس رپورٹ ميں بالخصوص شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کی ميزبانی کرنے والے ملکوں پر زور ديا گيا ہے کہ وہ شام ميں سلامتی کی صورتحال پر نگاہ رکھتے ہوئے پناہ گزينوں کی ملک بدری کا فيصلہ سوچ سمجھ کر کريں۔ سيو دا چلڈرن، نارويجيئن ريفيوجی کونسل اور ديگر امدادی اداروں کی جانب سے يہ رپورٹ اسی ہفتے کے آغاز پر جاری کی گئی۔ رپورٹ ميں واپس شام پہنچنے والے پناہ گزينوں کے تحفظ کو يقينی بنانے اور ان کی ديکھ بھال کے ليے کئی تجاويز بھی دی گئی ہيں۔ رپورٹ کے مسودے ميں يہ بھی لکھا ہے، ’’مسلح تنازعے و عدم استحکام کے علاوہ پينے کے صاف پانی، طبی سہوليات، تعليم، بجلی اور روزگار کے انتہائی محدود مواقع جيسے مسائل کا حل تلاش کيا جانا ضروری ہے۔ اس سے قبل کہ پناہ گزينوں کو وہاں واپس بھيجا جائے۔‘‘

رپورٹ ميں متعدد ديگر مسائل پر سے بھی پردہ اٹھايا گيا۔ مثال کے طور پر يہ کہ اردن ميں تقريباً بيس فيصد شامی مہاجرين کے پاس کوئی شناختی دستاويز نہيں۔ ترکی ميں تمام شامی مہاجر بچوں کو تعليم فراہم کرنے کے ليے کم از کم دس ہزار مزيد اسکول درکار ہيں اور يہ کہ لبنان ميں پچھلے سال جون ميں فوج نے شمالی بيکا ويلی ميں جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کی تاہم اس دوران وہاں موجود مہاجر کيمپوں کو بھی نقصان پہنچا۔

’نارويجيئن ريفيوجی کونسل‘ کی مشرق وسطیٰ ميں قائم شاخ کے علاقائی مشير برائے ذرائع ابلاغ کارل شيمبری کا کہنا ہے کہ پناہ گزينوں کی شام واپسی کی بات اسی وقت کی جا سکتی ہےجب پورے ملک ميں طويل المدتی يا کم از کم دير پا بنيادوں پر جنگ بندی نافذ ہو۔‘‘ انہوں نے بتايا کہ اس رپورٹ کے ليے انہوں نے لبنان اور اردن ميں پناہ ليے ہوئے ان شامی پناہ گزينوں سے بات کی، جن کے رشتہ دار واپس جا چکے ہيں اور انہيں حقائق سے آگاہ کرتے رہتے ہيں۔ شيمبری کے مطابق شامی مہاجرين کی اکثريت اپنے ملک واپس جانے کی خواہاں ہے ليکن وہ وہاں کے حالات سے مطمئن نہيں۔  

’نارويجيئن ريفيوجی کونسل‘ سے منسلک کارل شيمبری نے ’انفو مائگرينٹس‘ سے خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے ميں امريکا اور کينيڈا جيسے ملکوں کو زيادہ شامی مہاجرين کو پناہ فراہم کرنی چاہيے۔ ’’ہم امير ممالک سے يہ مطالبہ کر رہے ہيں کہ وہ اپنا دل کھوليں اور ان مہاجرن کی اپنے ہاں منتقلی کے پروگرام تشکيل ديں۔‘‘