1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملالہ یوسف زئی، لاکھوں انسانوں کے لیے ایک مثالیہ

عاطف توقیر10 اکتوبر 2014

ناروے کی نوبل کمیٹی نے امن انعام برائے 2014 کا اعلان پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی اور انسانی حقوق کے بھارتی کارکن کیلاش سیتارتھی کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان دونوں افراد کو یہ انعام بچوں کے حقوق کے لیے کوششوں پر دیا۔

https://p.dw.com/p/1DT3f
تصویر: picture-alliance/dpa

ملالہ یوسف زئی پر جب دو برس قبل طالبان عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا، تو اس وقت لگتا یوں تھا کہ شاید لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے والی ملالہ بین الاقوامی توجہ حاصل نہیں کر پائے گی۔ وادی سوات سے تعلق رکھنے والی یہ پاکستانی نوجوان لڑکی دنیا بھر میں تاہم اب تعلیم کے بنیادی انسانی حق کی ایک واضح علامت بن چکی ہے۔ اسی کے اعتراف میں آج جمعے کے روز ناروے کی نوبل کمیٹی نے ملالہ یوسف زئی کے لیے نوبل انعام برائے امن تجویز کیا۔

اس انعام کا اعلان کرتے ہوئے ناروے کی نوبل کمیٹی کا کہنا تھا، ’بچوں اور نوجوانوں کے حقوق کی پامالیوں کے خلاف جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے نوبل امن انعام برائے 2014 کیلاش سیتارتھی اور ملالہ یوسف زئی کو دیا جاتا ہے۔ بچوں کو ہر حال میں اسکول جانا چاہیے اور انہیں مالی جبریت سے بھی آزادی ملنا چاہیے۔ غریب ممالک کی آبادی کا 60 فیصد 25 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ تنازعات کے شکار ممالک میں خصوصاﹰ بچوں کے حقوق کی پامالی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی چلی جا رہی ہے۔‘

Nigeria Kinderrechtsaktivistin Malala Yousafzai aus Pakistan in Abuja 13.07.2014
ملالہ یوسف زئی عالمی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک علامت کے طور پر دیکھی جاتی ہیںتصویر: Reuters

اس بیان میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے سیتارتھی اور ملالہ یوسف زئی کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے عالمی سطح پر بچوں اور نوجوانوں کے حقوق کے حوالے سے شعور بڑھا ہے۔

پاکستان کی وادیء سوات سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ ملالہ یوسف زئی نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنا اس وقت شروع کی، جب سوات پر شدت پسند اسلامی گروہ طالبان کا کنٹرول تھا۔ تاہم عسکریت پسندوں کا خوف ملالہ کی آواز کو دبا نہ پایا۔ انہوں نے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے لیے اپنی ڈائری تحریر کرنا شروع کی، جس میں وہ طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے تعلیمی مراکز اور اسکولوں کو بموں سے اڑانے اور انہیں تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کرنے کے واقعات کو موضوع بنایا کرتی تھیں۔ دو برس قبل اسی پاداش میں طالبان نے ملالہ یوسف زئی کو ایک حملے میں سر پر گولی مار دی، تاہم وہ معجزاتی طور پر بچ گئیں۔ اس کے بعد نہ صرف عالمی سطح پر ان کی آواز اور بھی واضح انداز میں سنی جانے لگی بلکہ وہ لڑکیوں کے تعلیم کے حق کے حوالے سے عالمی سطح پر ایک علامت کے طور پر دیکھی جانے لگیں۔ ملالہ کو اس سے قبل متعدد اہم عالمی انعامات و اعزازات نوازا جا چکا ہے، تاہم نوبل امن انعام اس سلسلے میں عالمی سطح پر ملالہ کی کوششوں کا سب سے بڑا اعتراف ہے۔

ملالہ یوسف زئی کو یہ انعام انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک بھارتی کارکن کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے نوبل کمیٹی کی جانب سے ملالہ یوسف زئی کے لیے اس انعام کے اعلان کے بعد کہا کہ ملالہ پاکستان کا ’فخر‘ ہیں۔

جرمن حکومت نے ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی کو دیے جانے والے اس انعام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح عالمی سطح پر بچوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی کوششوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔ جرمن حکومت کی ترجمان کرسٹیانے وِرٹس نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی گیارہ برس کی عمر سے بچیوں کی تعلیم کے حق کے لیے کوششیں کر رہی ہیں اور حملے کے باوجود انہیں نے ان کوششوں کو رکنے نہ دیا۔ اسی طرح کیلاش ستیارتھی نے اپنے تنظیم کے ساتھ مل کر اب تک بے شمار بچوں کو جبری مشقت سے آزادی دلوائی ہے۔