1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملائیشیا سے ذاکر نائیک کی واپسی کے لیے بھارت کی کوشش

18 جون 2020

بھارتی حکومت ملائیشیا میں مقیم بھارتی مبلغ ذاکر نائیک کو وطن واپس لانے کی کوشش میں ہے۔ ان پر تازہ الزام یہ ہے کہ انہوں نے فروری میں نئی دہلی میں ہونے والے فسادات میں ملوث ایک شخص سے ملاقات کی تھی۔

https://p.dw.com/p/3dyI1
Indonesien Zakir Naik, Prediger Islamic Research Foundation
تصویر: Imago/Zuma Press

نئی دہلی حکومت کی کوشش ہے کہ معروف مبلغ ذاکر نائیک کو ملائیشیا سے وطن واپس لایا جائے۔ ایک بھارتی آن لائن اخبار 'دی قوئنٹ‘ کے مطابق اس متنازعہ مبلغ پر نیا الزام یہ ہے کہ شاید وہ رواں برس فروری میں نئی دہلی میں ہونے والے فسادات میں ملوث تھے۔

پندرہ جون کو دہلی پولیس کی جانب سے داخل کیے گئے ایک دعوے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ رواں برس فروری میں نئی دہلی میں ہونے والے خون ریز فسادات میں مطلوب ایک ملزم خالد سیفی نے ذاکر نائیک سے ملاقات کی تھی اور اپنے ایجنڈا کی ترویج کے لیے مدد طلب کی تھی۔ دوسری جانب ذاکر نائیک نے ایسی کسی بھی ملاقات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

اس نئی پیش رفت کے بعد بھارت میں ایک مرتبہ پھر اس متنازعہ مسلم مبلغ کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ 14 مئی کو بھارت نے ذاکر نائیک کی حوالگی کے لیے ملائیشیا سے باقاعدہ درخواست کی تھی۔ یہ متنازعہ مبلغ گزشتہ تین برسوں سے ملائیشیا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے پاس ملائیشیا میں مستقل سکونت کا اجازت نامہ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے:انٹرپول کا ذاکر نائیک کے خلاف نوٹس جاری کرنے سے انکار

بھارت میں ذاکر نائیک پر نفرت انگیزی اور منی لانڈرنگ سے متعلق مقدمات درج ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے غیرقانونی سرمائے سے 28 ملین ڈالر کی جائیداد خریدی جب کہ متعدد ایسی تقاریب کے لیے سرمایہ مہیا کیا، جہاں "اشتعال انگیز" تقاریر کی گئیں۔ ذاکر نائیک ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ اس مبلغ کا دعویٰ ہے کہ میڈیا نے ان کے ویڈیو کلپس کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تاکہ ان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جا سکیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ذاکر نائیک کیس کے ساتھ جڑی پیچیدہ سیاسی صورت حال اور بھارت میں مذہبی بنیادوں پر بڑھتی کشیدگی کی موجودگی میں ذاکر نائیک کی بھارت حوالگی ایک نہایت مشکل عمل ہو گی۔

ذاکر نائیک کون ہیں؟

ذاکر نائیک سخت گیر سلفی نظریات کے حامل سنی مسلم مبلغ ہیں۔ نائیک "پیس ٹی وی" کے نام سے چلنے والے ایک ٹی وی چینل پر اسلام کی سخت ترین تشریحات کی ترویج کرتے ہیں۔ بھارت میں اس سیٹلائٹ ٹی وی چینل پر پابندی عائد ہے، تاہم دنیا بھر میں اس ٹی وی چینل کے قریب دو سو ملین ناظرین ہیں۔ یہ ٹی وی چینل اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن نامی ادارے کی نگرانی میں چل رہا ہے، جب کہ اس ادارے کے سربراہ نائیک ہیں۔

ذاکر نائیک میڈیسن کی ڈگری کے حامل ہیں اور غیر روایتی طور پر عام مسلم مذہبی رہنماؤں جیسا لباس زیب تن نہیں کرتے جب کہ سر پر ٹوپی دھرے نظر آتے ہیں۔

پہلی بار ذاکر نائیک کو بین الاقوامی توجہ ڈھاکا میں ایک کیفے پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد ملی۔ اس حملے میں ملوث ملزمان میں سے ایک ذاکر نائیک کی تقاریر سے متاثر تھا۔ اس الزام کو ذاکر نائیک نے 'بنگلہ دیشی میڈیا کی ہیجان انگیزی‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔

نومبر 2016 میں بھارت میں انسداد دہشت گردی کے ایک ادارے نے ذاکر نائیک کے خلاف مذہبی بنیاد پر نفرت انگیزی اور غیرقانونی سرگرمیوں کے فروغ کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ اسی تناظر میں نائیک نے ملائیشیا میں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کر کے جلاوطنی اختیار کر لی۔

یہ بھی پڑھیے:بھارتی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے گرد گھیرا تنگ

ملائیشیا منتقلی کے بعد نائیک کے ادارے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کو مبینہ طور پر ترکی، پاکستان اور قطر سے سرمایہ حاصل ہوا۔ اسی دوران ترکی، پاکستان اور ملائیشیا کی جانب سے بھارت میں مسلم اقلیت کے ساتھ غیرمناسب برتاؤ کےحوالے سے تنقید بھی سامنے آتی رہی۔

Dr Zakir Naik
بھارت میں ذاکر نائیک پر نفرت انگیزی اور منی لانڈرنگ سے متعلق مقدمات درج ہیںتصویر: cc-by-maapu 2.0

امریکا میں قائم ایک غیرسرکاری میڈیا تنظیم فیئر آبزرور کے بانی اتُل سنگھ کے مطابق، "ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کسی حد تک جدید اسلامی ریاستیں ہیں، جو اسلام کو کاروبار، سائنس اور اقتصادیات سے جوڑے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ ممالک کبھی اسلام کی تبلیغ کرنے والے ذاکر نائیک کے خلاف نہیں جائیں گے۔ یہ مبلغ بھارتی مسلمانوں میں ان ممالک کے ثقافتی اثرورسوخ کی ترویج کے ذریعے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔"

ترکی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ سے وابستہ محقق حاجرہ مریم کے مطابق، "ذاکر نائیک ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کے ایک وسیع تر اتحاد قائم کرنے کے خیالیے کا حصہ ہیں ۔"

القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ سے متاثر

بھارتی حکومت مسلسل بین الاقوامی تعاون کے حصول کی کوشش میں ہے، تاکہ ملائیشیا ذاکر نائیک کو بھارت کے حوالے کر دے۔ انٹرپول اس حوالے سے تین بار بھارت کی جانب سے ریڈ نوٹس جاری کرنے کی درخواست مسترد کر چکی ہے۔

نئی دہلی کو ذاکر نائیک کے بھارتی مسلم نوجوانوں پر اثرات بھی پریشان کر رہے ہیں۔ بھارتی علاقے سونی پت میں قائم جندل اسکول برائے بین الاقوامی امور کی ڈین سری رام چاؤلیا کے مطابق بھارت کی اسلامک اسٹیٹ کے کئی غیرفعال سیلزموجود ہیں جو ذاکر نائیک کے نظریات سے متاثر ہیں۔ چاؤلیا کا کہنا ہے کہ ماضی میں القاعدہ کے متعدد ایسے حامی گرفتار کیے گئے، جنہوں نے تفتیشی حکام کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ ذاکر نائیک سے متاثر ہیں۔ بھارت میں ذاکر نائیک کو جہاد، ہندومت اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ان کے نظریات پر بھی تنقید کا سامنا ہے۔

نائیک کی حوالگی کی کوششوں پر تنقید

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ نائیک کی حوالگی کی کوششیں بھارت میں ہندوقوم پرستی کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جنوری 2018 میں منی لانڈرنگ کے انسداد کے ایک ٹریبیوبل میں جسٹس منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ حکام نے ذاکر نائیک کی جائیدادوں کی ضبطی کے لیے نہایت سبک رفتاری سے کام کیا مگر ایسے ہی الزامات کا سامنا کرنے والی متعدد ہندو شخصیات کےحوالے سے نہایت سست روی دکھائی گئی۔

یہ بھی پڑھیے:ذاکر نائیک کی تنظیم پر پانچ برس کی پابندی

پاکستانی ٹی وی چینل جیو سے وابستہ ریسرچر اور یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب لاہور کے وزیٹنگ پروفیسر نعیم بلوچ کے مطابق ہندو شدت پسند، ذاکر نائیک کے چند بیانات کا استعمال کر کے ان کی حوالگی کی کوشش کر رہے ہیں، ''ذاکر نائیک سے ایک بار اسامہ بن لادن کے جہاد سے متعلق نظریات کی بابت پوچھا گیا، تو انہوں نے بن لادن کے طریقہ کار کی سختی سے مخالفت کی۔ مگر لوگ اس کے باوجود ذاکر نائیک کی جہاد سے متعلق تشریحات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص نائیک کو غلط انداز سے پیش کرتا ہے اور جرم کرتا ہے، تو اس کا الزام ذاکر نائیک پر عائد کرنا مناسب نہیں۔‘‘

ملائیشیا شاید ذاکر نائیک بھارت کے حوالے نہ کرے

ملائیشیا کی جانب سے بھارتی درخواست پر فی الحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس سلسلے میں کسی بھی اقدام سے قبل کوالالمپور حکومت مذہبی اور سیاسی معاملات پر غور کرے گی۔

بھارتی ماہر چاؤلیا کے مطابق ملائیشیا میں موجودہ حکومت سابقہ حکومت سے بھی زیادہ مذہبی ہے، ''ذاکر نائیک ملائیشیا میں ملائیا مسلم برادری میں خاصے مقبول ہیں اور ملائیشیا میں مارچ میں قائم ہونے والی نئی حکومت اپنے ووٹ بینک کو متاثر نہیں کرے گی۔‘‘

ع ت/ ع ب / اے ایم

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں