1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقتولہ جرمن بچی کی قبر پر مشتبہ دہشت گرد کے ڈی این اے ثبوت

مقبول ملک
14 اکتوبر 2016

جرمن پولیس کو برسوں لاپتہ رہنے والی ایک بچی کی قبر کے قریب سے ایک مشتبہ دہشت گرد کے ڈی این اے کے نشانات ملے ہیں۔ پولیس پندرہ برس قبل اس نو سالہ لڑکی کی گم شدگی کے واقعے کا مشتبہ دہشت گرد سے تعلق ڈھونڈنے کی کوشش میں ہے۔

https://p.dw.com/p/2RDul
Bildkombo Peggy Kobloch / Uwe Böhnhardt
اُووے بوئہن ہارٹ اور پندرہ سال پہلے لاپتہ ہونے والی پَیگیتصویر: picture-alliance/dpa/BKA

جنوبی جرمن شہر میونخ سے جمعہ 14 اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جو جرمن لڑکی 15 برس سے بھی زائد عرصہ قبل اچانک لاپتہ ہو گئی تھی، اس کی عمر نو سال اور نام پَیگی تھا۔

اب تفتیشی ماہرین کو ایک جنگلاتی علاقے میں اس بچی کی قبر کی قریب سے انسانی ڈی این اے کے ایسے نشانات ملے ہیں، جن کے بارے میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ وہ مشتبہ نیو نازی دہشت گرد اُووے بوئہن ہارٹ (Uwe Boehnhardt) کا ڈی این اے ہے۔

ماہرین اب یہ پتہ چلانے کی کوشش میں ہیں کہ اس ڈی این اے اور دیگر دستیاب حقائق سے انہیں نیشنل سوشلسٹ انڈرگراؤنڈ (NSU) نامی ممنوعہ نیو نازی گروپ کے دہشت گردوں کے بارے میں کیا معلومات ملتی ہیں اور یہ کہ اُووے بوئہن ہارٹ نامی مشتبہ دہشت گرد کا 2001ء میں لاپتہ ہو جانے والی لڑکی پَیگی (Peggy) کی گم شدگی سے کیا تعلق تھا۔

این ایس یو نامی نیو نازی گروپ کی دہشت گردی اور پَیگی کی گمشدگی وہ دو بہت بڑے واقعات ہیں، جو حالیہ برسوں میں جرمنی میں بہت سی شہ سرخیوں کی وجہ بنے تھے۔

NSU-Terrorist Uwe Mundlos
این ایس یو کا مشتبہ نیو نازی دہشت گرد اُووے مُنڈلوس جو پولیس کو اپنے ساتھی بوئہن ہارٹ کے ساتھ مردہ حالت میں ملا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/BKA

اس سلسلے میں پولیس ماہرین کو ایک جنگلاتی علاقے میں پَیگی کی قبر کے قریب سے انسانی ڈی این اے کے جو بہت سے نشانات ملے، ان کے بارے میں یہ طے ہو گیا ہے کہ وہ اسی مشتبہ دہشت گرد بوئہن ہارٹ کا ڈی این اے ہے، جو قتل کے اب تک معلوم کم از کم دس واقعات کا ایک بڑا کردار تھا۔

اُووے بوئہن ہارٹ این ایس یو نامی نیو نازی دہشت گرد گروپ کا رکن تھا، اور اس گروپ نے زیادہ تر نسلی منافرت کی وجہ سے 2000ء اور 2007ء کے درمیانی عرصے میں کم از کم 10 افراد کو قتل کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق عین ممکن ہے کہ اس گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی تعداد 10 سے زیادہ ہو۔

پَیگی کے قتل کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس کی جسمانی باقیات کو کسی نے جزوی طور پر جرمن صوبے تھیورنگیا میں دفنا دیا تھا، اور ان کی وہاں موجودگی کا علم پولیس کو اسی سال دو جولائی کو اس وقت ہوا تھا جب ایک مقامی باشندہ اس جنگل میں کھبمیاں جمع کرنے کے لیے کھدائی کر رہا تھا اور پھر اس نے پولیس کو خبر کر دی تھی۔

پولیس کے مطابق تھیورنگیا میں پَیگی کی تدفین کی یہ جگہ جنوبی جرمن صوبے باویریا میں اس لڑکی کے آبائی قصبے لِشٹن برگ سے قریب 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ پَیگی مئی 2001ء میں اسکول سے واپس گھر جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئی تھی۔

Deutschland NSU-Prozess: Zschäpe meldet sich zum ersten Mal zu Wort
این ایس یو کی رکن مشتبہ خاتون دہشت گرد بیاٹے شَیپے جس کے خلاف مقدمے کی کارروائی ابھی جاری ہےتصویر: dpa

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اُووے بوئہن ہارٹ، اُووے مُنڈلوس اور بیاٹے شَیپے نامی خاتون ایک ایسے مبینہ نیو نازی دہشت گرد گروپ کے رکن تھے، جس نے نسلی منافرت کی بنا پر کئی قتل کرنے کے علاوہ متعدد بم حملے اور بینک ڈکیتیاں بھی کی تھیں۔

ان تین مشتبہ دہشت گردوں میں سے مُنڈلوس اور بوئہن ہارٹ کی لاشیں نومبر 2011ء میں جرمنی کے مشرقی شہر آئزیناخ میں کیمپنگ کے لیے استعمال ہونے والی لیکن پوری طرح جلی ہوئی ایک وین سے ملی تھیں۔ ان میں سے بیاٹے شَیپے پولیس کی حراست میں ہے، جس کے خلاف NSU کی طرف سے قتل کے متعدد واقعات کے الزام میں مقدمے کی سماعت ابھی جاری ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں