1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی یورپ، بچوں کو خسرہ میں دانستہ طور پر مبتلا کرنے کا رحجان

10 جنوری 2012

مغربی یورپ کے خوشحال ملکوں میں بچوں کے خسرہ کی انفیکیشن میں مبتلا ہونے کے واقعات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/13gix
تصویر: privat

اگرچہ مغربی یورپ کے ممالک میں ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہونے والی بیماری خسرہ کے خلاف مؤثر ویکسینیشن موجود ہے تاہم وہاں بہت سے والدین اپنے بچوں کو دانستہ طور پر خسرہ کی انفیکشن میں مبتلا کرتے ہیں، جو کئی حلقوں میں ایک قدرتی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

ویکسینیشن کے مخالفین صحت مند بچوں کو ایک کنٹرول طریقے سے دانستہ طور پر خسرہ میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ویکسینیشن کے بجائے بچوں کا اس بیماری میں ایک مرتبہ مبتلا ہوجانا، دراصل بچوں کے صحت مندی کے لیے زیادہ اہم ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود کئی فورمز خسرہ کو بچوں کی ایک بے ضرر بیماری قرار دیتے ہیں۔

ویکسینیشن یا حفاظتی ٹیکوں کے مخالفین صحت مند بچوں کو خسرہ میں مبتلا کرنے کے لیے خصوصی پارٹیوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں، جنہیں ’measles parties‘کہا جاتا ہے۔ ان گروپوں کے نزدیک ویکسین کی مدد سے خسرہ کو ہونے سے روک دینا مناسب نہیں ہے بلکہ ایک قدرتی طریقے سے بچوں کو خسرہ میں مبتلا کرنا بہتر ہے۔

Flash-Galerie Leibniz Galerie
خسرہ میں مبتلا مریض جب بولتا، کھانستا یا چھینکتا ہے تو اس بیماری کا وائرس پھیلتا ہےتصویر: picture alliance/ZB

دوسری طرف طبی ماہرین ان نظریات سے بالکل ہی مخلتف نظریہ رکھتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ خسرہ کی اصل انفیکشن، اس بیماری کی ویکسینیشن کے مقابلے میں انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ طبی ماہرین کے بقول کئی ممالک میں بچوں کو دانستہ طور پر خسرہ کے انفیکشن میں مبتلا کرنے کے لیے منعقد کی جانے والی کنٹرولڈ پارٹیاں غیر قانونی ہیں اور ان کے منتظمین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔

جرمنی میں بچوں کی ایک ڈاکٹر کاتیا شنائیڈر کہتی ہیں کہ وہ یہ نہیں سمجھ سکی ہیں کہ ایک ماں اپنے بچے کو دانستہ طور پر خسرہ جیسی انفیکشن میں مبتلا کرنے کی خواہش کیوں کر سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بعض کیسوں میں یہ انفیکشن انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جبکہ کچھ واقعات میں تو بچے ہلاک بھی ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر شنائیڈر زور دیتی ہیں کہ اس انفیکشن کی ویکسینیشن کروا لینا حد درجہ بہتر ہے۔ ڈاکٹر شنائیڈر کہتی ہیں کہ یورپی ملکوں میں بھی ویکسینیشن کے ایسے پروگرامز ہونے چاہییں، جیسا کی امریکہ میں ہیں، کیونکہ انہی پروگرامز کی وجہ سے امریکہ میں خسرہ کی انفیکیشن مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔

یورپی ملکوں میں خسرہ کی ویکسینیشن کروانے کے حوالے سے مختلف رحجانات پائے جاتے ہیں۔ فن لینڈ، سویڈن اور ہالینڈ میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کی شرح زیادہ ہے جبکہ جرمنی، فرانس، اٹلی، آسٹریا اور سویٹزرلینڈ میں یہ شرح کم ہے۔ یورپی طبی ماہرین کی طرف سے پیش کیے جانے والے مختلف اعداد و شمار کے مطابق یہ واضح ہے کہ جن ممالک میں حفاظتی ٹیکے لگوانے کی شرح زیادہ ہے، وہاں بچوں کی اموات کی شرح کم ہے۔

NO FLASH Gesundheit
’خسرہ کی اصل انفیکشن، اس بیماری کی ویکسینیشن کے مقابلے میں انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے‘تصویر: picture-alliance/dpa

خسرہ میں مبتلا مریض جب بولتا، کھانستا یا چھینکتا ہے تو اس بیماری کا وائرس پھیلتا ہے۔ عمومی طور پر اس بیماری کا پہلا اشارہ دس تا چودہ دنوں کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ زیادہ تر کیسوں میں ابتدائی طور پر اس بیماری کی علامات کچھ زیادہ خطرناک نہیں ہوتیں۔

اس بیماری کی ابتدائی علامات میں چھینکنا، کھانسنا، سینے کی جکڑ اور بخار شامل ہیں۔ تاہم کچھ دنوں بعد جسم پر پانی سے بھرے دانے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ خسرے کی باقاعدہ علامت سمجھی جاتی ہے۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق بیس برس سے زائد بالغ افراد اور پانچ برس سے کم عمر کے بچوں اس بیماری میں مبتلا ہونے کی شرح زیادہ ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں