1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغرب کا مقابلہ، چین اور روس کے مابین قربت بڑھتی ہوئی

30 دسمبر 2022

روسی صدر نے چین کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب چینی صدر چند ماہ بعد روس کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں۔ اس کا مقصد دنیا پر چین اور روس کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات کی اہمیت کو ظاہر کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/4LZtU
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعے کو اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے بات چیت کی ہے
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعے کو اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے بات چیت کی ہےتصویر: Sputnik/Mikhail Kuravlev/Kremlin/REUTERS

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعے کو اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے بات چیت کی ہے، جس میں صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ وہ چین کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے اس ویڈیو کانفرنس کے تعارفی کلمات میں صدر پوٹن نے مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں کو بھی سراہا ہے۔

چینی صدر کا متوقع اور اہم دورہ روس

صدر پوٹن نے شی جن پنگ کو آئندہ برس اپنے ملک کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دورے سے دنیا پر عیاں ہو گا کہ دونوں ممالک میں کتنی قربت پائی جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرین میں روس کی ''ناکام فوجی مہم‘‘ کے درمیان بیجنگ کی طرف سے یکجہتی کا  یہ عوامی مظاہرہ ہو گا۔

صدر پوٹن اور ان کے چینی ہم منصب کے درمیان ہونے والی ویڈیو کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسے سرکاری ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیا گیا ہے۔ صدر پوٹن کا کہنا تھا، '' ہم آپ کی آمد کی توقع کر رہے ہیں، محترم جناب چیئرمین، عزیز دوست! ہم آئندہ موسم بہار میں آپ کے ماسکو کے سرکاری دورے کی توقع کر رہے ہیں‘‘۔ تقریباً آٹھ منٹ تک بات کرتے ہوئے صدر پوٹن نے کہا کہ روس اور چین کے تعلقات مستحکم بھی ہو رہے ہیں اور ان کی اہمیت بھی بڑھ رہی ہے۔

چین بھی دو طرفہ تعاون بڑھانے پر تیار

روسی صدر کی تقریر کے جواب میں شی جن پنگ نے کہا کہ دنیا کو اس وقت ایک ''مشکل صورت حال‘‘ کا سامنا ہے اور اس تناظر میں چین روس کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ چین اور روس دونوں کا ہی کہنا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ کے مابین پائے جانے والے ''تعلقات کی کوئی حد نہیں‘‘ ہے اور روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے ان تعلقات میں مزید گہرائی پیدا ہوئی ہے۔

مغربی ممالک اور امریکہ روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے میں مصروف ہیں لیکن ایسی صورت حال میں چین نے امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ماسکو کی فوجی مہم کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد سے چین کو روسی توانائی کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت روس چین کو تیل فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

تاہم اس سب کے باوجود چین روس یوکرین تنازعے میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے کیوں کہ وہ کسی بھی قسم کی مغربی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے۔

ا ا / ع ت (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

یورپ کی طرف سے روسی تیل پر پابندیاں اور ان سے بچنے کے لیے روس کا حل