1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معصوم بچیوں کا ریپ اور ہمارا سماجی رویہ

رابعہ الرَباء
3 مارچ 2021

یہ جبلت کی بھی الگ کہانی ہمارے جاہل ذہنوں میں گھسی ہوئی ہے۔ جبلت کا لفظ سنتے ہی کان یوں کھڑے ہوتے ہیں جیسے رات کو کتے کے بھونکنے یا بلی کے رونے پہ ہوتے ہیں۔ رابعہ الرباء کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3q92B
رابعہ الرباء
تصویر: privat

وہ گلی میں کیوں کھیل رہی تھی؟ غلطی اس کے والدین کی ہے، اتنی چھوٹی بچی کو گلی میں کیوں چھوڑ دیا کھلینے کو؟ وہ سکول جا رہی تھی برقع بھی پہنا ہوا تھا؟ پھر آنکھوں سے اشارے کرتی ہوگی۔

وہ کالج جا رہی تھی اور اس کو پکڑ کر اس کا گینگ ریپ کر دیا اور نیم بے ہوش کو کسی کوڑے دان کے پاس، کسی چوک، کسی چوراہے میں پھینگ گئے۔ مگر کتنا بے غیرت ہے اس کا باپ کہ حکومت سے انصاف مانگ رہا ہے۔ اور بیٹی باپ کو چپ کروا رہی ہے۔

یہ ہماری سماجی تصویر کی ذرا سی جھلک ہے۔

ہم پورے کا پورے الزام لڑکی کے کھاتے میں ڈالتے ہیں یا پھر کسی حد تک اس کے والدین کے کھاتے میں۔ کبھی نہیں کہتے کہ لڑکے کی بھی غلطی تھی۔ مرد بھی غلط ہو سکتا ہے۔ اب تین سال کی بچی کسی کے جزبات کو کتنا اکسا سکتی ہے کہ آؤ اور میرے جسم کی دھجیاں اڑا دو۔ تاکہ میرے والدین کو جہیز کا بوجھ اٹھانے کی نوبت نہ آئے۔ بلکہ کفن پہ ہی آنسو بہا کر خاموش ہوجائیں۔

سماج میں کسی کو کیوں سمجھ نہیں آتا کہ تین سال کی بچی پہ کھیل کی پابندی لگا دی جائے، کیسے لگا دی جائے؟

کاش جیسے نکاح بالغوں کے لیے ہوتا ہے ویسے ہی ریپ کے لیے بھی کم از کم بچیوں کے بالغ ہونا ہی قانون میں شامل کر دیا جائے۔ تاکہ جنسی اعضاء تو پروان چڑھ چکے ہوں۔

یہ جبلت کی بھی الگ کہانی ہمارے جاہل ذہنوں میں گھسی ہوئی ہے۔ جبلت کا لفظ سنتے ہی کان یوں کھڑے ہوتے ہیں جیسے رات کو کتے کے بھونکنے یا بلی کے رونے پہ ہوتے ہیں۔ جبلت کو ہم صرف جنس سے جوڑتے ہیں ہماری سماجی لغت بس اتنی سی ہے اور ہر ریپ پہ یہ کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں کہ مرد کی تو جبلت میں ہی ہے، غلطی عورت کی ہوتی ہے۔ جبلت اتنی محدود کب ہے کہ جنس ہی بنی رہے کھانا، پینا، جذبے، رفع حاجت، سونا جاگنا سب جبلتیں ہیں اور مرد و عورت دونوں میں موجود ہیں۔

کیا آپ کو ہر وقت بھوک لگ سکتی ہے؟ کیا آپ ہر وقت کھا پی سکتے ہیں؟ کیا آپ ہر وقت سو سکتے ہیں یا جاگ سکتے ہیں؟

نہیں ناں؟ اگر جنس کے حوالے سے آپ پر ہر وقت جبلت طاری رہتی ہے تو اس کا مطلب ہے آپ بیمار ہیں۔ جی آپ بیمار ہیں۔

آپ کو یہ ماننا ہو گا کہ ریپ کرنے والا مرد جبلی طور پہ مجبور نہیں ہوتا بلکہ ذہنی طور پہ بیمار ہوتا ہے۔  ہم تو وہ جبلی خون خوار ہیں کہ جو قبروں کی میتیوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔

جبلت کے بارے میں تمام نفسیات دان متفق ہیں کہ جبلت انسانی ہو یا حیوانی ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔ تو جانور کیوں گینگ ریپ نہیں کرتے؟ یہ جانور کیوں کسی بچے کا ریپ نہیں کرتے؟ یہ کیوں مادہ کے لیے جنگل میں پہلے ایک دوسرے پہ فوقیت کی جنگ لڑتے ہیں؟ اور پھر جبلت کو پورا کرتے ہیں۔

البتہ کھانے کی جبلت میں جانور، مرد کی جبلت کے مقابلے پہ ہیں۔ بھوک لگی تو بچہ بھی کھا جاتے ہیں مگر بھوک لگتے پہ۔

دماغی طور پر بیمار مردوں کی جبلتوں کا مقصد صرف دو ٹانگوں کے درمیاں لٹکا ہوا ہے اور ان کا دماغ ہر وقت جبلی مواد پیدا کرتا رہتا ہے اور ریپسٹ ہر وقت کتے کی طرح وار کی تلاش میں ہوتا ہے۔ مگر کبھی اس کے والدین نہیں کہتے کہ ہمارا بیٹا غلط ہے۔ ٹی وی چینلز ان کی خبریں سنا سنا دکھا دکھا کر ناظر کو جبلت کے قدموں میں پھینک دینے کاایسا عظیم کام کرتے ہیں کہ ہمدردی کے ساتھ ،جنت سے نکلنے کی سزا کے طور پہ، کم ظرف ناظر بھی ایک بار سوچتے ضرور ہیں کہ آخر اتنی سی بچی کے ساتھ کیسا لطف آیا ہو گا۔

ارے کمینو اور کمینوں کی طرف دارو تم سب ایک ہی گنگا کے برہنہ مے خوار ہو۔

تمہیں اس درد کا کیا علم جو جنس سے موت کا ہوتا ہے۔

تمہیں تو مباشرت کے آداب عورت کے ساتھ نہیں آتے۔ بچیوں کے ساتھ تو چیلوں،گِدھوں،کتوں، بھیڑیوں والا سلوک کرتے ہو کہ یہ سماج میں مردانگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

جس بچی کا ریپ ہوتا ہے سب کا سب میڈیا اسے اور اس کے گھر والوں پہ فوکس کیے ہوتا ہے۔ ارے ظالمو ان ماؤں کے کالے کرتوتوں والے لال کو پکڑو، اسے پوچھو کہ ایسا کیوں کیا؟

مگر نہیں، ہماری سوئی تو وہیں پہ اٹکی ہوئی ہے۔  بچی کو گھر میں قید کر دو اور ذہنی مریضہ بنا دو۔ بنا سوچے سمجھے، کچھ پڑھائے، دکھائے اس کچی عمر کو کسی پکے سڑے لڈو سے بیاہ دو تو اس کی عزت محفوظ ہے۔

یہ سب شاید عورت کی ان برسوں صدیوں کی محنت کو ڈبونے کی شعوری کوشش ہے جو عورت نے تعلیم اور زندگی کا حق لینے کے لیے کی ہے۔ اور آج وہ دنیا بھر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتا رہی ہے کہ میں تم سے کم ترنہیں ہوں، برتر تھی، برتر ہوں۔ تم نے پڑھنا نہیں اور خوف اور احساس کمتری نے ریپ ہی سے مردانگی کے جوہر دکھانے ہیں۔ اس سے زیادہ صلاحیت ہے نہیں۔ اور تو اور وہ پڑھے لکھے ریپسٹوں کے آقا فرائیڈ نے ساری زندگی کو جنس کے فلسفے سے ایسے گڑبڑ کر دیا ہے کہ جبلت کے فلسفے بھی الٹ گئے ہیں۔

گویا اس نے جائز و ناجائز کی تفریق ختم کر کے جنس کے میدان میں محمود و غازی کو اکھٹے کھڑا کر دیا۔

ایسے سو کالڈ تعلیم یافتہ غلام ریپ کو جبلت اور اچانک سر زد ہو جانے والا فعل کہہ کر ٹال جاتے ہیں اور اگر عورت کی جبلت حملہ آور ہو جائے تو غیرت جاگ جاتی ہے۔

پہلے بچی پیدا ہوتے ہی مار دی جاتی تھی، جلا دی جاتی تھی، زندہ گاڑ دی جاتی تھی، یہ بھی ذہنی بیمار مردوں کا احساس کمتری تھا۔ اور اب ریپ کر کے مار دی جاتی ہے یہ بھی ذہینی بیماری کی صورت ہے۔

مگر اپنے انوکھے لاڈلوں کو کوئی لگام ڈالنے کو تیار نہیں۔ یاد رکھیں جو آگ دوسرے کے گھر میں لگائی جاتی ہے پلٹ کے اپنے ہی گھر کو لپیٹ میں لے لیٹی ہے۔ بیٹے کو انسان بنانے کی کوشش کریں نہیں تو وہ پورن ہیرو بن کر معاشرے کو پورن فلم بنانے کی سعی کر تا رہے گا۔