معزول عدلیہ کی بحالی کے لئے ایک اور ڈیڈ لائین
2 مئی 2008دبئی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد جمعہ کے دن پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک پیرس کانفرنس کا اہتمام کیا جس مین دبئی ملاقات میں زیر بحث آنے والے امور سے صحا فیوں کوآ گاہ کیا گیا۔
نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں معزول عدلیہ کی بحالی اعلان مری کے مطابق ہی ہو گی۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس معاملے میں حائل قانونی پیچیدگیوں اور سیاسی اتحادکو برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے پیپلز پارٹی کی اس شرط کو منظور کر لیا ہے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے سپریم کورٹ کے موجودہ جج بھی اپنی جگہوں پر برقرار رہیں گے۔
پاکستان کے معروف قانون دان اور جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد کا کہنا ہے اگر موجودہ جج برقرار رہے تو اس سے اسٹبلشمنٹ مضبوط ہو گی اور عدلیہ میں ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ معزول عدلیہ کی بحالی میں ایسا فورمولا لگایا گیا ہے کہ اس سے مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور صدر مشرف تمام خوش رہیں گے۔
معزول عدلیہ کی بحالی یا فعالی ؟
اب ایک بڑا سوال یہآ ن کھڑا ہوا ہے کہ کیا صرف معزول عدلیہ کی بحالی ہی مقصود تھا یا اسے اسی طرح فعال بھی کرنا تھا جس طرح یہ تین نومبر سے پہلے تھی۔ اس نئے فارمولے کے مطابق یعنی سپریم کورٹ میں ججوں میں اضافے سے ، اور ساتھ ہی آ ئینی پیکج کو متعارف کروانے سے شائد عدلیہ فعال نہ ہوسکے۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف قرار داد سے عدلیہ کی بحالی ممکن نہیں ہو سکے گی بلکہ اس مقصد کے لئےآئینی پیکج ہی ہی متعارف کروانا پڑے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما اور وفاقی قانونی وزیر فاروق ایچ نایئک نے کہاہے کہ آ ئینی پیکچ کو حتمی شکل دینے کے لئے ماہرین کی پانچ رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جس میں پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن بھی شامل ہوں گے۔
کیا قرارداد سے عدلیہ بحال ہو سکتی ہے؟
آئینی ماہرین اور قانون دانوں میں اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کہ
آیا قرارداد سے یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ قرارداد پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم ایک نوٹیفیکیشن جاری کریں گے یعنی اپنی ایگزیکٹیو پاور سے اس پر عملدآٓمد کروائیں گے ۔
لیکن دوسری طرف اگر موجودہ عدلیہ بحال رہتی ہے اور معزول عدلیہ کو بھی بحال کر دیا جاتا ہے تو یہ اس قانون کے خلاف ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد سترہ ہے۔ اور موجودہ منصوبہ بندی سے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد ستائیس ہو جائے گی۔
فاروق ایچ نائیک اس بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ساتھ ہی اگر آ ینی پیکج لےآئیں تو یہ معاملہ بھی حل ہو سکتاہے۔
آئینی پیکچ کیا ہے؟
تین نومبر کو عدلیہ کی معزولی سے قبل لندن میں چارٹرآف ڈیموکریسی کے تحت عدلیہ میں اصلاحات کی بات کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ میں بہتری کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ آئینی پیکچ دراصل اس سلسلے میں پیش کیا جائے گا۔ لیکن تین نومبر کو عدلیہ کی معزولی کے بعد یہ دونوں چیزیںآپس میں نتھی ہو گئیں ہیں جس کا اصل میں ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن اب اس بدلی ہوئی صورتحال میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی پیکچ میں عدلیہ کی آزادی پر قدغن بھی لگائی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ابھی تک آئینی پیکچ عوام کے سامنے نہیں لایا گیا لیکن وجیہ الدین نے اس بارے میں صحا فیوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کو آئینی پیکچ عدلیہ میں بہتری کے بجائے ابتری لا سکتا ہے۔
آئینی پیکچ پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تین نومبر کو کئے جانے والے صدر پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو آئینی تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔