مظفر گڑھ واقعہ: پولیس مقابلہ یا ماورائے عدالت قتل؟
29 جولائی 2015عوامی سطح پر رائے عامہ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی اور لاقانونیت کے خاتمے کے لیے صرف اور صرف قانونی طریقہٴ کار ہی اپنایا جانا چاہیے جبکہ بعض دیگر لوگوں کا خیال ہے کہ عدالتی محاذ پر پائے جانے والے مسائل کی موجودگی میں ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسائل حل کرنے کے ’آؤٹ آف بکس‘ طریقوں کی طرف جانا ہو گا۔
مظفر گڑھ کے واقعےکے حوالے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ابھی حتمی طور پر کوئی رائے دینا شاید مناسب نہ ہو گا۔ اصل صورتحال تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آ سکے گی البتہ ڈاکٹر عسکری سمجھتے ہیں کہ مظفر گڑھ کے واقعے میں دونوں امکانات موجود ہو سکتے ہیں:’’پاکستان میں جہاں جعلی پولیس مقابلوں کی روایت موجود رہی ہے، وہاں کالعدم تنظیموں کے ارکان کی طرف سے اپنے زیر حراست ساتھیوں کو زبردستی چھڑانے کے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے حوالے سے دو مختلف آراء سامنے لانے والوں کے پاس دونوں طرف مضبوط دلائل موجود ہیں:’’یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں کئی مسائل درپیش ہیں، گواہ سامنے آنے کو تیار نہیں ہوتے، پراسیکیوٹرز اور تفتیش کار درست طریقے سے اپنا کام مکمل نہیں کر پاتے، ججز کو دھمکیاں ملنے کی خبریں بھی ملتی رہی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان خامیوں کو دور کرنا ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ ریاست کو لاقانونیت ختم کرنے کے لیے قانونی راستہ ہی اپنانا چاہیے لیکن دوسری طرف جو لوگ دہشت گردی کی وارداتوں میں بے قصور مارے جاتے ہیں، ان کے بھی تو کوئی انسانی حقوق ہوتے ہیں، ان کا انصاف کے حصول کا مطالبہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
ڈاکٹرعسکری کے خیال میں انسانی حقوق کے اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں دونوں کو اس صورتحال میں ایک توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
روزنامہ ’نئی بات‘ کے گروپ ایڈیٹر عطاء الرحمن نے بتایا کہ مظفرگڑھ کا واقعہ ایک باقاعدہ پولیس مقابلہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ ماورائے عدالت قتل بھی ہو سکتا ہے، لیکن ان کے نزدیک یہ بات اپنی جگہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس واقعے میں مرنے والوں میں ایسے لوگ موجود تھے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب تھے۔ ان کے بقول اس واقعے کا دفاع تو نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ پھیلتی ہوئی دہشت گردی کے آگے عدالتی بند نہ باندھے جا سکنے کی صورت میں معاشرے کو بچانے کے لیے ریاست کے پاس اور کتنے آپشن باقی ہیں؟
پاکستان کے معروف اینکر پرسن اور سینیئر صحافی سید طلعت حسین کا کہنا ہے کہ مثالی صورتحال تو یہی ہے کہ ریاست قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششیں کرے لیکن ان کے بقول اب تو دنیا بھر کے مقتدر حلقوں میں ایک نئے رجحان کے طور پر یہ تاثر تقویت پاتا جا رہا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کے دور ہونے کا طویل انتظار کیے بغیر معاشرے کو نقصان پہنچانے والے عناصر سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ان کے مطابق مظفر گڑھ میں ہونے والا مبینہ پولیس مقابلے کا یہ واقعہ پاکستان میں اس نوعیت کا نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ آخری ہے۔ ان کی رائے میں اس رجحان کو عام نہیں ہونا چاہیے، اسے روایت نہیں بننا چاہیے۔
روزنامہ ’سٹی 42‘ کے ایڈیٹر اور سینیئر صحافی نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بظاہر یہ پولیس مقابلہ اصلی نہیں لگتا۔ ان کے بقول مظفر گڑھ کے واقعے کے ذریعے یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ مقتدر اور طاقتور حلقے جس کو مجرم سمجھیں گے، اس سے نجات حاصل کر لیں گے۔ نوید چوہدری سمجھتے ہیں کہ اس مائنڈ سیٹ کے فروغ پانے سے پاکستانی معاشرہ ایک بڑے بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔ انہیں حیرت ہے کہ بعض عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ایسی صورتحال پر آنکھیں بند بھی کر لیتی ہیں۔ پاکستان میں متعدد صحافتی شخصیات نے ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر اس صورتحال پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے۔