مصنوعی طریقے سے افزائش نسل پر یورپی پابندی تنقید کی زد میں
13 اپریل 2012یورپ میں افزائش نسل کے مصنوعی طریقوں پر قانونی قدغن عائد ہے۔ ایک تازہ عدالتی فیصلے کے مطابق مستقبل قریب میں ان قوانین میں کسی طرح کی نرمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
فرانس اور اٹلی میں غیر شادی شدہ خواتین اور ہم جنس پرست جوڑوں پر مصنوعی طریقے سے بچے حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ آسٹریا اور اٹلی ان یورپی ممالک میں شامل ہیں جہاں مصنوعی افزائش نسل کے لیے مادہ منویہ اور بیضہ کے عطیے پر پابندی عائد ہے۔ جرمنی اور ناروے میں بیضے کے دان دینے پر پابندی ہے تاہم مادہ منویہ پر نہیں۔
سویڈن جیسے ملکوں میں افزائش نسل کے معائنے کے لیے پہلے ایک برس تک دیکھا جاتا ہے کہ جوڑے کے درمیان تعلق کتنا مستحکم ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں جوڑوں کا شادی شدہ ہونا لازمی ہے۔
یوکرائن کے علاوہ تقریباً تمام یورپی ملکوں میں خواتین کو بچہ پیدا کرنے کی خدمات حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔
تاہم یونیورسٹی کالج لندن سے وابستہ ڈاکٹر شین فیلڈ کہتے ہیں کہ یہ قوانین بالکل بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ ’’یہ ایک طبی معاملہ ہے اور اس کو ڈاکٹروں پر ہی چھوڑ دینا چاہیے نہ کہ ججوں پر۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں، ’’مادہ منویہ اور بیضہ کے عطیے پر پابندی بانجھ جوڑوں کے خلاف تعصب ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ پچاس برس سے اوپر کی خواتین پر اس طریقے کے استعمال سے طبی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
دوسری جانب امریکا، آسٹریلیا، برازیل اور کینیڈا میں اس حوالے سے زیادہ سختیاں نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں یورپی باشندے افزائش نسل کے مصنوعی طریقوں سے مستفید ہونے کے لیے دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ عموماً جرمنی، سویڈن اور اٹلی کی کنواری خواتین بچہ حاصل کرنے کے لیے امریکا، آسٹریلیا اور کینیڈا ایسے ملک جاتی ہیں۔
جن یورپی ممالک میں مصنوعی افزائش نسل کے طریقوں پر پابندی ہے، یا جہاں پر اس حوالے سے قوانین سخت ہیں، وہاں ان پابندیوں کے اسباب مذہب سے بھی وابستہ ہیں اور یہ تکنیکی اور طبی نوعیت کے بھی ہیں۔
ss/at (AP)