1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر میں اخوان المسلمون کا وجود نہیں رہے گا، السیسی

عدنان اسحاق 6 مئی 2014

مصری فوج کے سابق سربراہ اور صدارتی امیدوار عبدالفتح السیسی نے کہا ہے کہ اگر وہ سربراہ مملکت منتخب ہو گئے تو اخوان المسلمون کا وجود نہیں رہے گا۔ ایک انٹرویو میں السیسی نے اپنے قتل کی دو سازشوں کا بھی انکشاف کیا۔

https://p.dw.com/p/1BuGs
تصویر: DW/A. Wael

مصری فوج کے سابق سربراہ عبدالفتح السیسی نے ملک کے دو ٹیلی وژن چینلز سے اپنی گفتگو کے دوران مزید کہا کہ معزول صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمون کا مصر سے خاتمہ ہو چکا ہے اور اب اس کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ السیسی کے بقول مصری عوام نے اس جماعت کے نظریات کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ میں نے ختم نہیں کیا ہے آپ مصری عوام نے انہیں ختم کیا ہے۔‘‘

السیسی نے گزشتہ برس مرسی کو اقتدار سے فارغ کیا تھا۔ اس کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں میں 14 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اس جماعت سے تھا۔ اس دوران فوج کی سرپرستی میں قائم انتظامیہ نے اخوان المسلون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے پابندی بھی عائد کر دی ہے۔

Ägypten Präsidentschaftswahl
مصر میں اسی ماہ کی 26 اور 27 تاریخ کو صداراتی انتخابات کے لیے رائے شماری ہو گی اور ان میں صرف امیدواروں کے مابین مقابلہ ہو گاتصویر: Ahmed Wael

ریٹائرڈ فیلڈ مارشل السیسی نے پہلے سے ریکارڈ کیے جانے والے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ ان کے صدر بننے کے بعد مصر کے سیاسی معاملات میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ انہوں نے اس دوران واضح الفاظ میں کہا کہ وہ فوج کے صدراتی امیدوار نہیں ہیں۔ محمد مرسی کے علاوہ ابھی تک مصر میں صدر بننے والے تمام افراد کا تعلق فوج سے رہا تھا۔

مصر میں اسی ماہ کی 26 اور 27 تاریخ کو صداراتی انتخابات کے لیے رائے شماری ہو گی اور ان میں صرف امیدواروں کے مابین مقابلہ ہو گا۔ السیسی کے علاوہ حمدین صباحی انتخابی امیدوار ہیں۔ صباحی 2012ء کے انتخابات میں مرسی اور فضائیہ کے سابق سربراہ احمد شفیق کے بعد تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ مصر میں اسلام پسند حلقوں کا خیال ہے کہ مرسی کو ایک سازش کے تحت اقتدار سے الگ کیا گیا تھا اور اس میں مرکزی کردارعبدالفتح السیسی نے ادا کیا تھا۔

گزشتہ ماہ ایک مصری عدالت نے چھ اپریل کے نام سے نوجوانوں کی ایک تحریک پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس تحریک نے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انہی نوجوانوں نے مصری کی عبوری حکومت کی کارکردگی کے خلاف بھی زبردست احتجاج جاری رکھا ہوا تھا۔ ان کا مؤقف ہے کہ موجودہ حکومت نے پولیس کو بے پناہ اختیارات دے رکھے ہیں اور وہ کسی بھی مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر سکتی ہے۔ ان کے بقول یہ آزادی اظہار کی خلاف ورزی ہے۔

السیسی کے اس انٹرویو کا دوسرا حصہ آج منگل کے روز نشر کیا جائے گا۔ عبدالفتح السیسی کے اس انٹرویو سے اس امر کی واضح نشاندہی ہوتی ہے کہ ملک کی موجودہ انتظامیہ اور اخوان المسلمون کے مابین سیاسی مصالحت کا کوئی امکان نہیں ہے۔