مشرقی یروشلم میں یہودی آبادی کاری غلط ہے، امریکہ
29 دسمبر 2009اسرائیلی حکومت نے یہ اعلان کل پیر کے روز کیا تھا کہ مغربی کنارے کے وہ مقبوضہ علاقے جنہیں اسرائیل یروشلم کا حصہ قرار دیتا ہے، وہاں یہودی آبادکاروں کے لئے تقریبا 700 نئے گھر تعمیر کئے جائیں گے۔ اس پر امریکہ میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے فوری منفی ردعمل دیکھنے میں آیا اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبس نے صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن نئی رہائشی تعمیرات سے متعلق اسرائیلی حکومت کے اس نئے فیصلے کا مخالف ہے۔
ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ پورے مسئلہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ فریقین کو متنازعہ علاقے کے مستقبل سے متعلق نئے مذاکرات بھی شروع کرنا چاہیئں۔ رابرٹ گبس کے بقول یروشلم کا مسئلہ یہودیوں، مسلمانوں اور مسیحی عقیدے کے انسانوں، تینوں ہی کے لئے انتہائی اہم ہے اور اس تاریخی شہر کی مستقل حیثیت سے متعلق فلسطینیوں اور اسرائیل کو اپنا اختلاف رائے بین الاقوامی برادری کی مدد سے لیکن پر امن طور پر مذاکرات کی میز پر ختم کرنا چاہئے۔
اسرائیل میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت نے پیر کو اپنے ایک اعلان میں کہا تھا کہ نئی یہودی بستیوں یا مکانات کی تعمیر محدود عرصے کے لئے روک دینے کے فیصلے کا اطلاق یروشلم پر نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہاؤسنگ کی ملکی وزارت نے یروشلم کے نزدیک لیکن یروشلم کا حصہ قرار دیے جانے والے مقبوضہ علاقے میں قائم تین مختلف بستیوں میں کئی سو نئے ہاؤسنگ یونٹ تعمیر کرنے کے لئے ٹینڈر طلب کر لئے ہیں۔
اس پر فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے ان کے ایک ترجمان نے نہ صرف اس اسرائیلی اقدام کی سخت مذمت کی بلکہ یہ بھی کہا کہ یروشلم کے نواح میں 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضے میں لئے گئے فلسطینی علاقے میں یہودی آبادکاروں کے لئے کسی بھی طرح کے نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر قطعی طور پر غیر قانونی ہے۔ محمود عباس کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی حکومت اپنے فیصلوں کے ذریعے ہر روز یہ ثابت کر دیتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن پر تیار نہیں ہے۔
اسرائیل بین الاقوامی برادری کی طرف سے شدید تنقید کے باوجود کافی عرصے سے اس مقبوضہ علاقے میں اپنے شہریوں کی آبادکاری کو اس طرح جاری رکھے ہوئے ہے کہ ماضی میں اگر عرب مشرقی یروشلم کے نواح میں یہودیوں کی تعداد انتہائی کم تھی تو آج وہاں قائم بستیوں میں عرب نسل کے دو لاکھ 70 ہزار باشندوں کے مقابلے میں یہودی آبادکاروں کی مجموعی تعداد دو لاکھ کے قریب ہو چکی ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: ندیم گِل