1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرف کی متوقع واپسی، کیا سابق آمر کا کوئی سیاسی مستقبل ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
11 جون 2018

پاکستان میں سابق صدر اور سابق فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی واپسی کی خبروں نے ملک کے سیاسی ماحول کو ایک بار پھر گرما دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سابق فوجی حکمراں کا کوئی سیاسی مستقبل بھی ہے یا نہیں۔

https://p.dw.com/p/2zIs5
Pakistan Ex-Präsident Pervez Musharraf Archiv 2010
تصویر: Reuters

پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ نادیدہ قوتیں سابق صدر پرویز مشرف کو واپس لانا چاہتی ہیں تاکہ کہ چھوٹی جماعتوں کا اتحاد بنا کر سابق فوجی آمر کو اس کا قائد بنا دیا جائے لیکن ملک میں کئی حلقے یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا سابق فوجی حکمراں کا کوئی سیاسی مستقبل بھی ہے یا نہیں۔ ان کے ناقدین اُس عدالتی فیصلے پر بھی کھل کر تنقید کر رہے ہیں، جس کے تحت سابق فوجی آمر کو مشروط طور پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی اجازت دی گئی ہے اور عدالت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ پیش ہوجائیں تو انہیں گرفتا ر نہیں کیا جائے گا۔

عدالت کی طرف سے اس گارنٹی پر نواز شریف سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے تنقید کی ہے۔ تاہم اب جنرل مشرف کی پارٹی اس سے بھی زیادہ ضمانتیں چاہتی ہے۔ سابق فوجی حکمران کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما شہزاد ستی نے ان ضمانتوں کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ جنرل مشرف کو اس بات کی گارنٹی دی جائے کہ انہیں کم از کم انتخابات تک گرفتار نہیں کیا جائے گا اور انہیں ملک میں آزادانہ طور پر نقل و حرکت کی اجازت ہوگی۔ پہلے ہم چاہتے تھے کہ جنرل صاحب تیرہ جون کو عدالت میں پیش ہو جائیں لیکن اب ہمیں اس نوکر شاہی پر اعتبار نہیں رہا، جس میں نواز شریف کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جنرل صاحب کا شناختی کارڈ بلاک کر کے نواز شریف سے وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ اب شناختی کارڈ کو بحال کر دیا گیا ہے اور ہم ان کی واپسی کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔ تاہم واپسی کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔‘‘
جنرل مشرف نے 1999ء سے 2007ء تک ملک میں ایک طاقتور حکمران کے طور پر حکومت کی۔ تاہم دوہزار آٹھ میں پی پی پی کی حکومت آنے کے بعد، انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ کچھ برسوں پہلے جب جنرل مشرف پاکستان واپس آئے تو انہیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ ان کے استقبال کے لیے چند سو افراد بھی جمع نہیں ہو سکے۔ اس کے باوجود ان کی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ جنرل مشرف اور ان کی جماعت بھر پور انداز میں انتخابات میں حصہ لے گی۔ اس حوالے سے شہزاد ستی نے بتایا، ’’جنرل مشرف چترال، کراچی اور لیہ سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کے کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کرا دیے گئے ہیں۔ ہماری جماعت کو تین سو دراخواستیں امیدواوں کی موصول ہوئی تھیں اور ہم نے تقریباﹰ دوسو افراد کو ٹکٹس جاری کیے ہیں، جو پورے ملک سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑیں گے۔‘‘
شہزادکا دعویٰ ہے کہ اگر گزشتہ انتخابات سے پہلے جنرل مشرف کو نا اہل قرار نہیں دیا جاتا تو وہ چترال سے قومی اسمبلی کی نشست جیت جاتے: ’’اس بار بھی ہمیں امید ہے کہ وہ کراچی، لیہ اور چترال تینوں نشتوں سے جیتیں گے۔‘‘
لیکن ان کے ناقدین کے خیال میں مشرف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ ماضی میں جنرل مشرف کے خلاف تحریک میں حصہ لینے والے جنرل امجد شعیب کے خیال میں مشرف خوشامدیوں میں گھرے ہوئے ہیں اور وہی ان کو آنے پر مجبور کر رہے ہیں: ’’میرے خیال میں مشرف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔ وہ پہلے بھی فیس بک پر اپنے پیروکاروں کی تعداد کو دیکھ کر بہت خوش ہوگئے تھے اور اس کے بعد ان کو مایوسی ہوئی۔ ان کے اردگرد خوشامدی بیٹھے ہوئے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ مشرف اگر واپس آتا ہے تو ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوگا۔‘‘
سابق امیرِ جماعتِ اسلامی سید منور حسین بھی جنرل امجد کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مشرف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں: ’’ایک ایسا شخص جس نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار آئین توڑا ہو، اس کا ملک میں کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہوسکتا۔ تاہم عدالت نے جو اس کی واپسی کے حوالے سے اجازت دی ہے، اس پر عوام کے شدید تحفظات ہیں۔ لوگوں میں پہلے ہی یہ باتیں چل رہی تھیں کہ اگر آپ فوج میں اونچے عہدے پر پہنچ جائیں تو سیاہ سفید کے مالک بن جاتے ہیں۔ اس فیصلے سے اس تاثر کو مذید تقویت ملی ہے اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے جو دعوے کئے جارہے تھے، ان پر بھی اب لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔‘‘
کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں کچھ نادیدہ قوتیں مشرف کو واپس لانا چاہتی ہیں۔ مشرف کے خلاف مقدمات دائر کرنے والے وکیل اور تجزیہ نگار کرنل انعام الرحیم کے خیال میں کوئی قوت ان کو لانا چاہتی ہے: ’’خلائی مخلوق ان کو لا کر چھوٹی جماعتوں کا قائد بنانا چاہتی ہے۔ جس میں کوئی ستائیس کے قریب چھوٹی جماعتیں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کے کسی گروپ کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے لیکن میرے خیال میں مشرف بزدل آدمی ہے۔ اس کے خلاف اکبر بگٹی مقدمہ قتل، بے نظیرمقدمہ قتل، غداری اور لال مسجد جیسے سنگین مقدمات ہیں۔ اس کے علاوہ اب نیب بھی اس کے خلاف انکوائری کھول رہی ہے ۔ تو ایک تو وہ اس وجہ سے نہیں آئے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کے لیے بہت ساری تفصیلات امیدواروں کو دینا پڑ رہی ہے۔ اس لیے بھی شاید جنرل مشرف آنے سے کترائے۔ لیکن اگر وہ آتا ہے تو ملک میں اس کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔‘‘

Pervez Musharraf Rückkehr aus dem Exil
پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ نادیدہ قوتیں سابق صدر پرویز مشرف کو واپس لانا چاہتی ہیں تاکہ کہ چھوٹی جماعتوں کا اتحاد بنا کر سابق فوجی آمر کو اس کا قائد بنا دیا جائے۔تصویر: REUTERS