1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمان طالبات کی لڑکوں کے ہمراہ سوئمنگ لازمی، جرمن عدالت

12 ستمبر 2013

ایک تیرہ سالہ مسلمان طالبہ نے لڑکوں کے ہمراہ تیراکی کے اسباق لینے سے انکار کر دیا تھا۔ جرمنی کی اعلیٰ انتظامی عدالت نے اس کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بُرکینی پہن کر تیراکی کرنا اسلامی معاشرتی معیار کے مطابق ہے۔

https://p.dw.com/p/19gGF
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن شہر لائپزگ میں جرمنی کی ایک اعلیٰ ترین عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ’کوایجوکیشن اسکولوں‘ میں مسلمان طالب علم لڑکیوں کو لازمی طور پر اپنے ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ تیراکی کے اسباق لینا ہوں گے۔ اسی طرح بدھ کے روز ہی اس عدالت نے عیسائی مذہب کے ایک فرقے ’ یہووا’ (Jehovah's Witness) سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی اپیل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کو جرمن زبان کے پیریڈ کے دوران دکھائی جانے والی فلم ’کرابات‘ دیکھنے سے منع کر دیا تھا۔ اس شخص کے مطابق اس فلم میں کالا جادو دکھایا گیا ہے اور یہ ان کی مذہبی تعلیمات کے برعکس ہے۔ ان دونوں کیسوں میں عدالت کی طرف سے انفرادی سطح پر مذہبی آزادی اور نوجوانوں کو تعلیم دینے کی آئینی اور ریاستی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے سنائے گئے ہیں۔

Muslim girls must go to swimming lessons

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق تیرہ سالہ مسلمان طالبہ کے اہل خانہ کا تعلق مراکش سے ہے۔ اس مسلمان لڑکی کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ بُرکینی پہن کر سوئمنگ کرنے میں شرم محسوس کرتی ہے اور لڑکوں کے ساتھ مل کر ایسا کرنا اس کی مذہبی آزادی کے برعکس ہے۔ اس لڑکی کا مزید کہنا تھا کہ سوئمنگ ہال میں لڑکوں نے نہایت کم کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔ اس مقدمے میں مسلمان طالبہ کا کہنا تھا کہ اسے سوئمنگ کی کلاسوں سے چھوٹ دی جائے۔

بُرکینی پر ’سمجھوتہ‘

بُرکینی ایک ایسا سوئمنگ سوٹ ہے، جس کے پہننے سے صرف چہرہ، ہاتھ اور پاؤں دکھائی دیتے ہیں۔ وفاقی عدالت کے صدر جج ویرنر نوئمان کا کہنا تھا، ’’ بُرکینی پہن کر سوئمنگ سیکھنا مسلمانوں کے خیالات کے مطابق ہے۔‘‘ جرمن عدالت کا کہنا تھا سوئمنگ ہال میں کم اور ڈھیلے لباس ميں ملبوس لڑکوں کی موجودگی انفرادی سطح پر مذہبی آزادی کی کوئی بڑی خلاف ورزی نہیں ہے۔ عدالت کے مطابق اس طرح کا لباس لوگ موسم گرما میں جرمنی کی سڑکوں پر پہن کر گھومتے ہیں۔

جج ویرنر نوئمان کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جرمنی میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں اور اس لیے اسکولوں کے معاملے میں ہر کسی کے تحفظات پر غور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو اسکولوں میں پڑھائے جانے والے مضامین ميں بھی فرق پیدا ہوتا جائے گا۔