1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستقبل کی جنگيں کيسی ہوں گی؟

8 جون 2021

دنيا ہتھيار سازی کے ايک نئے دور ميں داخل ہو گئی ہے جس ميں مصنوعی ذہانت ایک کليدی جزو ہے۔ آج ٹيکنالوجی کی بدولت عسکری صلاحيتوں ميں اضافہ تو ہو گيا ہے تاہم اگر ان کی کڑی نگرانی نہ کی گئی تو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3uaFN
Deutschland warnt: KI-Wettrüsten bereits im Gange
تصویر: DW

مصنوعی ذہانت پر مبنی ہتھيار سازی کی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ جرمن وزير خارجہ ہائيکو ماس نے یہ تنبیہ جرمنی کے بين الاقوامی نشرياتی ادارے ڈوئچے ويلے کو ايک دستاويزی فلم کے ليے انٹرويو ديتے ہوئے کی۔ ان کے بقول يہ ايک ايسی حقيقت ہے، جسے سب کو قبول کرنا ہی پڑے گا۔ عالمی قوتيں ايک دوسرے پر برتری کی کوششوں ميں ہيں اور مصنوعی ذہانت پر ہی اس بات کا دار و مدار ہے کہ کون سا ملک يا فوج کتنی طاقت ور ہے۔

چين نے آئندہ پانچ برسوں کے ليے اپنی منصوبہ بندی ميں مصنوعی ذہانت کو بھی شامل کيا ہے۔ پيپلز لبريشن آرمی کی مستقبل سے متعلق عسکری حکمت عملی کے ليے ريسرچ اور ڈویلپمنٹ کی بنياد مصنوعی ذہانت پر ہی ہے۔ روسی صدر ولاديمير پوٹن نے تو سن 2017 ميں ہی کہہ ديا تھا، ''جو بھی اس ميدان ميں آگے ہو گا، وہی مستقبل کی دنيا ميں قائدانہ کردار ادا کرے گا۔‘‘ کئی اور ممالک بھی اس ٹيکنالوجی ميں بھاری سرمايہ کاری کر رہے ہيں اور عام طور پر ايسے پروگرام خفيہ رکھے جاتے ہيں۔

نگورنو کاراباخ کے متنازعہ خطے ميں گزشتہ سال آرمينيا اور آذربائيجان کے مابين پھر ایک بار کھڑا ہونے والا مسلح تنازعہ اس سلسلے ميں ايک اہم موڑ ثابت ہوا۔ يورپی کونسل برائے خارجہ امور کی رکن اور جنگوں ميں ڈرونز کے استعمال سے متعلقہ امور کی ماہر اُلريکے فرانکے کہتی ہيں کہ اس تنازعے ميں سب سے اہم بات 'کاميکازے ڈرونز‘ کا استعمال تھا۔ بغير پائلٹ کے پرواز کرنے والے یہ ڈرونز ايسے اہداف کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحيت رکھتے ہيں، جو ان ميں نصب کيمروں کی پہنچ سے دور ہوں۔ فرانکے کے مطابق يہ ٹيکنالوجی اس سے قبل بھی استعمال ہو چکی ہے مگر حاليہ مسلح کارروائيوں ميں اس ٹيکنالوجی کی صلاحيت کا کھل کر اندازہ ہوا۔

يورپی کونسل برائے خارجہ امور کی اس رکن نے مزيد بتايا کہ ديگر عسکری قوتوں نے بھی يہ ديکھا اور يہی وجہ ہے کہ حاليہ مہینوں ميں 'کاميکازے ڈرونز‘ اور ان سے منسلک ٹيکنالوجی ميں خاصی دلچسپی ديکھی گئی ہے۔ اب کئی بڑی عسکری قوتيں يہ نظام خريدنے کے ليے کوشاں ہيں۔

اور يہ تو صرف آغاز ہے۔ واشنگٹن ميں قائم تھنک ٹينک 'سينٹر فار اے نيو امريکن سکيورٹی‘ کے مارٹن واسر کا کہنا ہے کہ مستقبل ميں کئی ڈرون طياروں کے تقریباﹰ کسی جھنڈ کی مدد سے 'کاميکازے ڈرونز‘ پورے کے پورے فضائی دفاعی نظام کو تباہ کرنے کے اہل ہوں گے۔

کیا ہم روبوٹس کو اپنی سوچ سے کنٹرول کر سکتے ہیں؟

کيا مستقبل کی جنگيں خودکار روبوٹ لڑيں گے؟

ہارورڈ لاء اسکول کی ليکچرار بونی ڈوکرٹی چاہتی ہيں کہ مسلح تنازعات ميں خودکار روبوٹس کے ممکنہ استعمال کو ابھی سے روکا جائے۔ وہ ايک مہم کی سربراہ بھی ہيں، جس کا مقصد کسی ايسے معاہدے کو حتمی شکل دينا ہے، جس کے تحت ايسے ہتھياروں پر پابندی لگا دی جائے۔ مگر اسرائيل، روس، امريکا اور برطانيہ ايسے خودکار روبوٹس کی تياری ميں مصروف ہيں اور ایسے کسی ممکنہ معاہدے کی مخالفت کرتے آئے ہيں۔

جرمن وزير خارجہ ہائيکو ماس بونی ڈوکرٹی کی مہم کے حامی نہيں مگر معاہدے کے حق ميں ہيں۔ انہوں نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ وہ چاہتے ہيں کہ ايسے کسی معاہدے ميں سبھی اہم ممالک شامل ہوں۔ وہ ان ممالک کی شموليت چاہتے ہيں، جو خودکار روبوٹس کی تياری اور کسی جنگی صورتحال ميں ان کے استعمال کی صلاحيت رکھتے ہيں۔

بيشتر ماہرين کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کی قانونی ريگوليشن لازمی ہے۔ اس شعبے ميں قواعد و ضوابط کا طے کيا جانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔

قاتل روبوٹ کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں؟

ع س / م م (رچرڈ واکر)