مستقبل میں انسانی خوراک کیسی ہوگی؟
انسانی خوراک پر عالمی چیلنجز کس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ جرمنی میں حفظانِ صحت کے میوزیم میں ’فیوچر فوڈ: ہم مستقبل میں کیا کھائیں گے؟‘ کےعنوان سے جاری نمائش میں خوراک کے ماضی اور مستقبل کے منفرد پہلو پیش کیے جا رہے ہیں۔
آزادی کے لیے شکر کا بائیکاٹ
شکر کا بائیکاٹ، جو سن 1791 میں شروع کیا گیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ صارفین کی جانب سے یہ تاریخ کا پہلا بائیکاٹ تھا۔ اس وقت شکر انگریزوں کے غلاموں کی تجارت کی ایک علامت بن چکی تھی۔ اس تصویر میں، کارٹونسٹ آئزک کروکشانک نے اس وقت کے اُن رئیسوں کا مذاق اڑایا تھا، جو خود کو فریڈم فائٹر کہتے تھے لیکن ان کی میٹھی چائے کسی کے لیے ماتم کا سبب تھی۔
ایک غیر صحت بخش رجحان: 1902ء کے کوکوائیوورس
سن 1902 میں سبزی خور اگست اینگل ہارٹ نے جرمن نوآبادیاتی سلطنت کے ایک حصے جرمن نیو گنی میں ناریل کے پودے لگائے۔ چونکہ ناریل کا درخت اونچا اور سورج کی طرف بڑھتا ہے، لہٰذا اسے یقین تھا کہ یہ بہت مفید ہے۔ اینگل ہارٹ نے سورج کے پرستاروں کے ایک ایسے فرقے کی بنیاد رکھی جو کوکوائیوورس تھے، وہ صرف ناریل پر مشتمل خوراک کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے بہت سے پیروکار جلد ہی فوت ہوگئے۔
سویا سوسیج کس نے ایجاد کیا؟
زیادہ سے زیادہ لوگ سبزی خور بن رہے ہیں، لہذا کھانے کی صنعت گوشت کے مختلف متبادل تیار کر رہی ہے۔ لیکن یہ کوئی نیا رجحان نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران، اس وقت کے ڈائریکٹر فوڈ سپلائی اور بعد میں پہلے جرمن چانسلر کونراڈ آڈیناؤر نے لوگوں کو پروٹین سے بھرپور کھانا فراہم کرنے کے لیے سویا سوسیج ایجاد کیا تھا۔
دور اندیش منصوبہ بندی: ٹاور گرین ہاؤس
آسٹریا کے ایک انجینئر اوتھمار روتھنر نے سن 1964 میں ویانا انٹرنیشنل گارڈن شو کے دوران اپنا ’ٹاور گرین ہاؤس‘ پیش کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اکتالیس میٹر اونچے گلاس ٹاور میں پھول اور سبزیاں کاشت کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں آبپاشی کا نظام اور کھاد مکمل طور پر خودکار تھے۔ دور حاضر میں روتھنر کی اس تکنیک کو ’عمودی کاشت کاری‘ کہا جاتا ہے۔
مرغی کے سستے گوشت کی درآمد کی مخالفت
جب سے یورپ اور امریکا نے سستے داموں پر افریقی ممالک میں گوشت برآمد کرنا شروع کیا ہے تب سے گھانا کے مقامی پولٹری فارم معاشی تنگی کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ افریقہ کے مقامی پولٹری فارمز مارکیٹ میں صرف پانچ فیصد گوشت فروخت کر پاتے ہیں۔ لہٰذا یہ مہم لوگوں کو مقامی سطح پر تیار کردہ چکن استعمال کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔
دنیا کا سب سے شفاف چکن
بڑے پیمانے پر گوشت کی پیداوار کی بجائے زیادہ سے زیادہ صارفین اب نامیاتی خوراک کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ تاہم، جانوروں کے بارے میں معلومات عام طور پر کھانے کے ڈبوں پر دستیاب نہیں ہوتی۔ ’بلاک برڈ‘ نامی کمپنی ذبح کی گئی مرغی کے بارے میں بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے ریکارڈ کی گئی تمام تر تفصیلات جاری کرتی ہے۔
پانی پر ایک گائے کا فارم
شہری علاقوں میں کھیت کھلیان اور مویشی محدود تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ہالینڈ میں اس کا ایک متبادل تیار کیا گیا: مندرجہ بالا تصویر روٹرڈام کی بندرگاہ میں تیرتے ڈیری فارم کی ہے۔ پانی پر قائم یہ ڈیری فارم نہ صرف زمین بچاتا ہے بلکہ گائے کے دودھ کی نقل و حمل کو بھی قدراﹰ آسان بناتا ہے۔
چھ ٹانگوں والی خوراک
یورپی یونین میں سن 2018 سے کچھ کیڑوں کو خوراک میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر، پروٹین سے بھرپور رات کے جھینگر خشک، نمکین یا پاؤڈر کی صورت میں بڑے پیمانے پر کھانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
دلکش اور لذیذ ناشتہ
فوٹوگرافر مائیکل زی سن 2013 سے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنے اور اپنے ساتھی کے لیے تیار کردہ ناشتے کی تصویر شائع کر رہے ہیں۔ ہر بار، وہ ترتیب و متوازن انداز میں کھانا پیش کرتے ہیں۔ اس طرح زی، روزمرہ کی زندگی میں رشتوں کی دیکھ بھال میں چھپی خوبصورتی اور کھانے کی متنوع ثقافت کا جشن مناتے ہیں۔
ایسے برتن جو کھانے کا مزہ دوبالا کردیں
جنوبی کوریا کے ڈیزائنر جنہیان جیون کھانا چکھنے کے احساس کو بڑھانے کے لیے منفرد چمچ تخلیق کرتے ہیں۔ ذائقہ چکھنے کے تجربے کو خاص بنانے کے لیے وہ چمچوں کو مختلف درجہ حرارت، رنگ، ڈیزائن، سائز اور انداز بخشتے ہیں۔
کھانا ایک لائف اسٹائل
لذیذ طعام سے سجی کھانے کی میز پر بیٹھ کر مختلف پکوان کے ذائقے سے لطف اندوز ہونا، کیا مستقبل میں یہ ممکن ہوگا؟ ڈریسڈن میں واقع جرمن حفظان صحت میوزیم میں اس سوال سے متعلق ایک منفرد نمائش جاری ہے۔ یہ نمائش اکیس فروری 2021ء تک جاری رہے گی۔