’مساوی تعلیم‘ سے مراد کیا ہے؟
9 مئی 2012دنیا بھر میں انسانوں کے درمیان برابری کے تصور نے چند ہی صدیوں میں ایک نیا جہان تخلیق کر دیا، تاہم اب بھی تعلیم کے میدان میں مساوی مواقع کی فراہمی دنیا کے متعدد ممالک میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ یونیسکو اس صورتحال کو اپنے پروجیکٹ ’تعلیم سب کے لیے‘ کے ذریعے بدلنا چاہتا ہے۔
مجموعی طور پر یونیسکو کے اس پروجیکٹ میں طے شدہ اہداف میں سے زیادہ تر پر، اس پروجیکٹ میں شریک 164 ممالک اتفاق کر چکے ہیں۔ ان ممالک کا عزم ہے کہ وہ بنیادی تعلیم کو مفت اور تمام بچوں کے لیے یقینی بنائیں گے جبکہ بالغان میں ناخواندگی کی شرح کو کم کر کے نصف تک پہنچا دیں گے جبکہ خواتین اور مردوں کے درمیان کسی قسم کی تفاوت نہ کی جائے گی۔
لاکھوں بچے اسکول سے دور
یونیسکو کے تعلیم برائے امن و پائیدار ترقی کے شعبے کے ڈائریکٹر مارک رچمنڈ کے مطابق تعلیم سے جڑے مسائل کا ایک اہم حل لوگوں کی امیدوں میں اضافہ ہے۔ ’’تعلیم ہر شخص کا حق ہے۔ ہم جتنا زیادہ مطالبہ کریں گے، حکومتیں اسی قدر اس پر توجہ مرکوز کریں گی اور اپنے ہاں اس بابت قانون سازی کریں گی۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ پر امید ہوں گے۔‘‘
دیگر ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی طرح جرمنی میں پر بچے کو لازماﹰ اسکول جانا ہوتا ہے۔ یونیسکو کے شعبے ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ کی ڈائریکٹر پاؤلین روز اس بارے میں اعداد و شمار بتاتی ہیں، ’گو کہ زیادہ تر ممالک میں بچوں کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ اسکول جائیں تاہم اب بھی 67 ملین بچے ایسے ہیں، جو نہیں جا رہے ہیں۔‘
غریب ممالک میں غربت اور بدعنوانی تعلیمی مواقع کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ غریب خاندان خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے بچوں کی فیس، کتابوں اور یونیفارم کے اخراجات اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
مساوی تعلیم جرمنی میں بھی ایک مسئلہ
اگر بات بچوں کو تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرنے کی ہو تو صنعتی ممالک میں جرمنی دیگر ملکوں کے مقابلے میں خاصے نیچے درجے پر آتا ہے۔ جرمنی میں ہر بچے کو پبلک اسکول جانا ہوتا ہے، جب تک وہ 18 برس کی عمر تک ’آبیٹور‘ کا امتحان پاس کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے کوالیفائی نہ کر جائے۔ اس نقطہ نظر سے جرمنی میں ہر بچے کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر سکے۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ جرمن تعلیمی نظام غیر منصفانہ ہے۔ جرمنی کی زیادہ تر ریاستوں میں جب کوئی بچہ چوتھی جماعت کا طالب علم ہوتا ہے تو اس کے بارے میں یہ طے کر دیا جاتا ہے کہ آیا اسے اس راستے پر ڈالا جائے، جو جامعہ کی جانب جاتا ہے یا پھر ہنرمندی کی جانب۔ ناقدین کی رائے میں کسی بچے کے لیے یہ طے کرنے کے لیے یہ بہت جلدبازی پر مبنی فیصلہ ہے۔
ایسے طلبہ جن کے والدین کے پاس کسی جامعہ کی ڈگری ہوتی ہے، انہیں دیگر طلبہ کے مقابلے میں زیادہ آسانیاں فراہم ہوتی ہیں۔ تحقیقی مطالعے بتاتے ہیں کہ اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے والا بچہ ورکنگ کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والے بچے کے مقابلے میں تعلیمی اعتبار سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔
اس طرح لور کلاس خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بچے پیچھے رہ جاتے ہیں، خصوصا ایسے خاندان جو ہجرت کر کے جرمنی آباد ہوتے ہیں، کیونکہ وہ پرائیویٹ اسکول اور تعلیمی معاونت کے اخراجات اٹھا نہیں پاتے۔ جرمنی میں تعلیم ہر بچے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاہم اسکول ایسے طلبہ جو سماجی اعتبار سے کم ایڈوانٹیج کے حامل ہوتے ہیں، انہیں یہ بتانے سے قاصر رہتے ہیں کہ تعلیم کے ان مواقع سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں کاٹیا اُرباچ نے ’آربائیٹ کنڈ ڈاٹ ڈی ای‘ نامی ایک کلب شروع کر رکھا ہے، جو ایسے مسائل کے شکار بچوں کی مدد کرتا ہے۔ اس کلب کے اراکین بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بے شک کسی خاندان میں پہلے کوئی بچہ جامعہ تک نہ پہنچ پایا ہو۔
اُرباچ تعلیم کے بارے میں عوامی رائے اور حقیقت کے درمیان کا فرق اچھی طرح جانتی ہیں، ’زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ نے آبیٹور (اسکول سے فارغ ہونے کا امتحان) پاس کر لیا، تو آپ یونیورسٹی ضرور جائیں گے، لیکن اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ایسا ہر بار نہیں ہوتا۔‘
اُرباچ کے مطابق جرمنی میں ایسے صرف پچاس فیصد طلبہ آبیٹور کے بعد یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں، جن کے خاندان میں پہلے کوئی جامعہ نہ گیا ہو۔ ’ہم ایسے طلبہ کی معاونت تب تک کرتے ہیں جب تک وہ جامعہ سے تعلیمی سند لے کر فارغ التحصیل نہ ہو جائیں۔‘
اس تمام بہتری کے باوجود معاشرتی تفاوتوں کے باعث بہت سے لوگ اب بھی تعلیم تک رسائی کو ایک سراب ہی سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظون کا چناؤ، گرامر اور لہجہ وہ چیزیں ہیں، جن سے کسی شخص کے سماجی پس منظر کا پتا چل جاتا ہے۔ انٹرویو لینے والے کسی خاص طرز یا لہجے میں گفتگو کرنے والے افراد کی بابت تفریق کرتے ہیں۔
تعلیم معیشت کے لیے بہتر
جب حکومتیں تعلیم کے میدان میں سرمایہ صرف کرتی ہیں، تو معاشی مفادات تعلیم کے حوالے سے انسانی دلچسپی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ کاروبار اور سیاست ان قابل طلبہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعد میں یہی اعلیٰ مرتبوں پر فائز ہوتے ہیں۔ ایسے ممالک جہاں قدرتی وسائل کی کمی ہو، وہاں تعلیم کے میدان میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے ممالک جہاں سائنسدانوں اور انجینیئروں کی قلت ہو، وظائف کے ذریعے مخصوص مضامین میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
جامعات جنہیں طلبہ کی توجہ درکار ہوتی ہے، اپنی خدمات میں اضافہ اور فیس میں کمی کرتی ہیں۔ ریاست تعلیم کے میدان میں ایسے اقدامات کر کے یہ کوشش کرتی ہیں کہ مستقبل میں مخصوص فیلڈز میں آسامیوں کو بھرا جا سکے۔ کاروباری ادارے اپنے ملازمین کی پیشہ وارانہ قابلیتوں میں اضافے کے لیے تربیت کے شعبے میں سرمایہ لگاتے ہیں۔
یونیسکو کے ڈائریکٹر مارک رچمنڈ کے خیال میں جرمنی یا امریکا میں عالمی ادارہ کئی برسوں سے تعلیمی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں میں مصروف ہے۔ ’’ترقی یافتہ ممالک میں بھی آبادی کے کئی حصے ہیں، جنہیں تعلیم کے یکساں مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ اس فرق کے خاتمے کی کوشش ایک سخت جدوجہد ہے، جو جاری رہے گی۔‘‘
رپورٹ: گابے روئشر at/kb/
ادارت: امتیاز احمد