1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مراکش اسپین اور جرمنی سے ناراض لیکن کیوں؟

23 مئی 2021

مراکش کو مغربی صحرائی علاقے میں آزادی کی ایک زبردست تحریک کا سامنا ہے۔ اس تحریک کے لیڈر کا علاج اس وقت اسپین میں کیا جا رہا ہے۔ یہی بات مراکش کی ناراضی کا باعث ہے۔

https://p.dw.com/p/3to83
Internationaler Protest I Free Sahara
تصویر: Fermin Rodriguez/NurPhoto/picture alliance

بظاہر مراکش نے ابھی تک واضح انداز میں اسپین سے ناراضی و برہمی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ المغرب کہلانے والے ملک کی عام شہرت مراکش کے نام سے ہے۔ اسی نام کا ایک صوبہ بھی اسی ملک یعنی المغرب میں ہے۔ اپنی حکومتی برہمی کا اظہار مراکشی انسانی حقوق کے وزیر مصطفیٰ رمید کے اس بیان سے ہوتا ہے، جو انہوں نے اپنے فیس بُک پیج پر شائع کیا ہے۔ رمید نے ہسپانوی حکومت کے اقدام پر تنقید کی، جو مغربی صحارا کی آزادی کی تحریک پولی ساریو فرنٹ کے لیڈر کو علاج دینے سے متعلق ہے۔

مراکش نے جرمن سفارت خانے سے روابط منقطع کر لیے

پولی ساریو کے لیڈر کا علاج

مغربی صحارا میں آزادی کی تحریک کے لیڈر ابراہیم غالی (عمومی طور پر انہیں براہم غالی لکھا جاتا ہے)  رواں برس اپریل سے کورونا وائرس کی وجہ سے علیل ہیں۔ انہیں شمالی اسپین میں علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ مراکشی وزیر مصطفیٰ رمید نے فیس بُک پر اپنے پیج پر لکھا کہ اسپین نے ایک ایسے شخص کو پناہ دے رکھی ہے، جس نے ان کے ملک (مراکش) کے خلاف ہتھار اٹھا رکھے ہیں۔ دوسری جانب اعلیٰ ترین ہسپانوی عدالت نے ابراہیم غالی کو مبینہ جنگی جرائم کے الزام کے تحت طلب کر لیا ہے۔

Westsahara | UN Mission MINURSO
مغربی صحارا میں اقوام متحدہ کا امن مشن بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہےتصویر: Fadel Senna/AFP/Getty Images

مراکش کے تحفظات

یورپی یونین کی ایک اہم رکن ریاست میں ابراہیم غالی کو علاج معالجے کی سہولت دینے پر مراکش کو شدید تحفظات لاحق ہیں۔ مراکشی حکومت کو یقین ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ویسٹرن صحارا پر اس کی حاکمیت تسلیم کرنے کے موقف کے بعد اس میں مزید بین الاقوامیت پیدا ہو گی۔ ٹرمپ نے اس مناسبت سے ایک بیان دسمبر سن 2020 میں دیا تھا۔ سفارت کاروں کے مطابق ٹرمپ کا بیان مراکش کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دو طرفہ تعلقات قائم کرنے کے تناطر میں تھا۔ اسرائیل اور مراکش کے درمیان سفارتی روابط بحال ہو گئے ہیں مگر صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سے باہر ہو چکے ہیں۔ ابراہیم غالی کے علاج پر مراکش کو فکر لاحق ہو گئی ہے کہ اب کئی اور ممالک مغربی صحارا پر اس کی حاکمیت کے دعوے پر انگلی اٹھا سکتے ہیں۔

پولیساریو کے سربراہ کی اقوام متحدہ کے رہنما کو دورے کی دعوت

جرمنی اور مراکش

مراکش کے جرمنی سے تعلقات بھی ہموار نہیں ہیں۔ رواں برس مئی میں شمالی افریقی ملک نے برلن سے اپنا سفیر یہ کہہ کر واپس طلب کر لیا تھا کہ جرمنی اشتعال انگیز اقدامات کا مرتکب ہوا ہے۔ خیال رہے جرمنی نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے مغربی صحارا پر مراکشی حاکمیت تسلیم کرنے کے بیان پر بھی کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ اس مناسبت سے جرمنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر کے یہ معاملہ زیرِ بحث بھی لایا تھا۔

Algerien | Smara Flüchtlingslager Sahrauis
سمارا ریفیوجی کیمپ میں صحراوی باشندے مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: Louiza Ammi/abaca/picture alliance

مغربی صحارا، پولیساریو فرنٹ اور تنازعہ

اس تنازعہ سن 1884 سے شروع ہے، جب براعظم افریقہ یورپی طاقتوں میں تقسیم تھا۔ اس وقت یہ علاقہ مغربی صحارا کہلاتا تھا اور ہسپانوی اثر و رسوخ میں تھا۔ سن 1976 میں اسپین نے یہ علاقہ چھوڑنا شروع کر دیا اور کئی افریقی ملکوں کو آزادی ملی۔ مغربی صحارا پر مراکش اور موریطانیہ نے حاکمیت کے دعوے کر دیے۔ اس دعوے سے موریطانیہ سن 1979 میں دستبردار ہو گیا اور مراکش نے مغربی صحارا کے جنوبی حصے پر قبضہ کر لیا۔

اسرائیل سے تعلقات کی بحالی ’بے پناہ فائدہ مند‘ ہے، پرنس فیصل

پولیساریو فرنٹ سن 1973 میں قائم کیا گیا۔ اس کا پورا نام 'الجبة الشعبیہ ساقیہ الحمرا و وادی الذہب‘ ہے۔ اس کے بانی لیڈر الولی مصطفیٰ السید تھے۔ مغربی صحارا کے لوگ خود کو صحراوی قرار دیتے ہیں۔ الولی مصطفیٰ السید ایک حملے کے بعد واپسی پر ستائیس برس کی عمر میں موریطانیہ کی فوج کے اچانک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیساریو فرنٹ اپنے علاقے کو 'صحارا عرب ڈیموکریٹک ریپبلک‘  قرار دیتا ہے۔ اسے افریقی یونین سمیت پچاس ریاستیں تسلیم کر چکی ہیں۔ مراکش اور پولیساریو فرنٹ کے درمیان مسلح تنازعہ سن 1975 سے جاری ہے۔

کیتھرین شعیر (ع ح، ا ا)