1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مراعات یافتہ طبقہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہے، جرمن ماہرِ سیاسیات

13 مئی 2013

جرمنی کے ایک ماہرِ سیاسیات یوخن ہِپلر نے کہا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم وہاں تیزی سے پنپتی عدم برداشت کے لیے براہ راست ذمہ دار نہیں ہے لیکن مراعات یافتہ طبقہ اس جنوب ایشیائی ریاست کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/18WaE
تصویر: picture-alliance/ dpa

ماہرِ سیاسیات ڈاکٹر یوخن ہِپلر نے ان خیالات کا اظہار ڈوئچے ویلے کی اُردو سروس کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں کیا۔ ڈاکٹر ہِپلر پاکستان کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اسے بالواسطہ طور پر معاشرے میں عدم برداشت پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ نظام تعلیم کو درپیش بڑے مسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث بالخصوص سرکاری سطح پر پرائمری تعلیم کا نظام انتہائی خراب ہے۔ ڈاکٹر ہِپلر نے کہا کہ ان حالات میں کچھ لوگ اپنے بچوں کو ایسے مدرسوں میں بھیجتے ہیں، جن میں سے بعض عدم برداشت کے فروغ کی وجہ بن رہے ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتہاپسندی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مقتدر طبقے نے اپنی قانونی حیثیت کھو دی ہے۔ انہوں نے حکمرانوں کے رویے کے ساتھ ساتھ افغان جنگ میں امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلق کو اس کی ایک وجہ قرار دیا۔
ایک سوال کے جواب میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اینڈ پیس جرمنی سے وابستہ ڈاکٹر ہِپلر نے کہا کہ پاکستان وجود میں آیا تو مراعات یافتہ طبقے کو برطانوی انتظامیہ کی متکبر سوچ ورثے میں ملی، جو جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں جاگیردارانہ تکبر میں رَچ گئی۔

04.05.2013 DW online Karte Artikel Pakistan Karachi ENG
ڈاکٹر ہپلر 1988ء سے اب تک تقریباﹰ پچیس مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام تو بہت اچھے ہیں، لیکن مراعات یافتہ طبقہ (سیاسی اور عسکری) ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے، جس نے اپنی تنگ ذہنیت اور خود غرضی کے باعث پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔

جمہوریت

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی منتخب حکومت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی مثبت پیش رفت تھی۔
انہوں نے کہا کہ مدت پوری کرنے کے علاوہ اس حکومت کے دَور میں بعض اور بھی مثبت کام ہوئے، جن میں آئینی ترامیم بھی شامل ہیں لیکن بہت سے شعبوں میں کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بدعنوانی، توانائی کے بحران اور معاشی بدحالی کا خصوصی ذکر کی۔ ڈاکٹر ہَپلر نےکہا کہ یہ مسائل عوام میں حکومت کے لیے ناپسندیدگی کا جذبہ پیدا کرنے کا باعث بنے۔
سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فوج کی جانب سے حکومتوں کا تختہ الٹا جانا کبھی اچھا نہیں ہوتا، اس کے باوجود مشرف نے بعض اچھے کام کیے۔ ڈاکٹر ہِپلر نے کہا کہ امریکیوں کے ساتھ تعاون شاید ان کی سیاسی خودکشی تھی، لیکن اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارا بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس اتحاد نے لوگوں کو ان کے خلاف کیا جبکہ اس کے علاوہ اپنے اقتدار کو طول دینے سے بھی وہ ناپسندیدہ بنے۔

ڈاکٹر ہِپلر کا کہنا تھا: ’’پرویز مشرف کی حکومت کی ابتدا میں مجھے یہ تاثر ملا کہ وہ پاکستان کے لیے کچھ تبدیلی چاہتے ہیں، لیکن آخری دِنوں میں ان کی دلچسپی اقتدار کو اپنی گرفت میں رکھنے میں تھی۔‘‘

Pakistan Ex-Präsident Pervez Musharraf Archiv 2010
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرفتصویر: Reuters

تعلیم

پاکستان کے نظامِ تعلیم پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر یوخن ہِپلر نے کہا: ’’یہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ گزشتہ پندرہ برس کے دوران (اس میں) بڑے پیمانے پر توسیع ہوئی ہے، مزید یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ یہ توسیع تو اچھی بات ہے لیکن اب اگلا قدم شاید معیارِ تعلیم کو بلند کرنا ہونا چاہیے، صرف تعداد بڑھانا نہیں۔‘‘

ڈاکٹر ہِپلر نے پاکستان ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس نے شعبہ تعلیم کو مستحکم کیا ہے۔ طلبا کو بیرون ملکوں میں تعلیم کے مواقع دیے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’مثلاﹰ جب پاکستانی اسٹوڈنٹ کے طور پر آپ کو جرمن ادارے DAAD سے اسکالرشپ ملتی ہے تو جرمن مالی تعاون کے ساتھ اکثر اس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (پاکستان) بھی مالی معاونت کرتا ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ 1988ء سے اب تک تقریباﹰ پچیس مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ییں۔

رپورٹ: ندیم گِل، بون

ادارت: عدنان اسحاق