محققین ایڈز کے کامیاب علاج کے لیے پُر امید
12 جون 2013ویکسین RV144 کو امریکی ریاست Mississipi میں ایک نو مولود بچی پر آزمایا گیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ تاہم سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر اس دوا کا اثر ایڈز کے ہر مریض پر نہیں ہوسکے گا۔
ایڈز وہ موذی مرض ہے جو اب تک 30 ملین انسانوں کی جان لے چُکا ہے۔ طبی ماہرین نے اس کے خلاف جو طریقہ علاج دریافت کیا ہے اُسے اگر ایڈز کے مرض کے جنم لینے کے بعد ابتدائی مرحلے میں بروئے کار لایا گیا تو یہ مؤثر ثابت ہو گا۔ مرض کا ابتدائی مرحلہ گزر جانے کے بعد یہ دوا کار آمد ثابت نہیں ہو سکے گی۔
یہ دوا دو مختلف کیمیاوی اجزاء کا مرکب ہے۔ ایک جزو انسانی جسم میں قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے اور دوسرا وائرس کُش ہے۔ ماہرین نے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ یہ دوا ایڈز کے ایسے مریضوں کی شفاء کا سبب نہیں بن سکے گی جن میں پایا جانے والا ایڈر کا انفیکشن شدید نوعیت اختیار کر چکا ہو اور اس کا کبھی کوئی علاج نہ کیا گیا ہو۔ یعنی ایڈز کے ایسے مریض جن میں یہ بیماری موجود ہو لیکن اس کی علامات نہ پائی جاتی ہوں، ان کے لیے یہ نئی دوا کار گر ثابن نہیں ہو سکے گی۔
امریکا کے ’انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفکشس ڈیزیزز‘ کے ڈائریکٹر انتھونی فاؤسی نے حال ہی میں پیرس میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کے تیس برس مکمل ہونے پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں کہا کہ،’ ہمیں انفرادی مطالعاتی جائزوں کے بعد اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا،’ یہ ایک دشوار مگر کار آمد رستہ ہے‘۔ واضح رہے کہ ایچ آئی وی وہ وائرس ہے جو ایڈز کے موذی عارضے کا سبب بنتا ہے۔
انتھونی فاؤسی نے بتایا کہ ایڈز کے خلاف تیار کی جانے والی ویکسین RV144 کو 2009ء میں 16 ہزار انسانوں پر آزمایا گیا جن میں سے 31 فیصد پر یہ ویکسین کار آمد ثابت ہوئی اور وہ ایچ آئی وی کے انفیکشن سے محفوظ رہے۔ اس ویکسین پر مزید تجربے کیے جاتے رہے اور اب سائنسدانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ ویکسین مزید افراد پر کار آمد ثابت ہوگی۔
ویکسین RV144 جسے ’تھائی ٹرائل‘ بھی کہا جاتا ہے، کا تجربہ سب سے پہلے تھائی لینڈ میں 2003ء اکتوبر کے ماہ میں کیا گیا تھا اور یہ سلسلہ 24 ہفتوں تک جاری رہا، اُس وقت دو کیمیاوی اجزا کو ملاکر تیار کی جانے والے اس ویکسین کا تجربہ ناکام ثابت ہوا تھا۔ بعد ازاں 2006 ء میں یہ تجریہ دوبارہ کیا گیا اور تب سے طبی ماہرین اس پر مزید تحقیق کر رہے تھے۔ اب انہیں امید کی یہ کرن نظر آئی ہے کہ ویکسین RV144 کی مدد سے ایچ آئی وی انفکشن سے بچاؤ ممکن ہو سکے گا۔ تاہم امریکا کے ’انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفکشس ڈیزیزز‘ کے ڈائرکٹر انتھونی فاؤسی نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس ویکسین کی مدد سے مکمل علاج کی توقع رکھنا خام خیالی ہوگی۔ یہ ایچ آئی وی کے شکار ہر مریض کے لیے شفا بخش ثابت نہیں ہو سکتا۔
ویکسین RV144 کو امریکی ریاست Mississipi میں ایک نو مولود بچی پر آزمایا گیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ اس بچی کی پیدائش کے فوراﹰ بعد ہی اسے 30 گھنٹوں کے اندر اینٹی ریٹرووائرل کے ذریعے ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ سے بچا لیا گیا۔
ادھر فرانس میں 14 مریضوں کے اندر ایچ آئی وی کے انفیکشن کی تشخیص کے دس ہفتوں کے اندر اندر اس ویکسین کے ذریعے شروع ہونے والے علاج کے مثبت اثرات سامنے آئے۔ یہ علاج تین برس تک جاری رہنے کے بعد روک دیا گیا اور اس کے بعد بھی یہ مریض صحت مند ہی رہے۔
km/zb(AFP)