1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالیاتی بحران اور یورپ میں سیاحت کی صنعت

2 نومبر 2010

حالیہ کساد بازاری نے جہاں عالمی مالیاتی منڈیوں کو شدید متاثر کیا، وہیں اس کی وجہ سے یورپ بھر میں گزشتہ سال سیاحت کی صنعت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔

https://p.dw.com/p/PwiX
تصویر: AP

مختلف جائزوں کے مطابق یورپ بھر میں بہت سے ملکوں کے شہریوں نے اپنی تعطیلات اپنے گھروں پر ہی گزاریں جبکہ پہلے ایسے یورپی باشندے بالخصوص موسم گرما میں پوری آب و تاب سے چمکتے سورج کی تلاش میں دلفریب اور دلکش مقامات کا رخ کرتے تھے۔

مثال کے طور پر صرف برطانیہ کی ہی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں رواں سال موسم گرما میں تعطیلات منانے کے لئے بیرون ملک جانے والوں کی شرح 15 فیصد کم رہی حالانکہ برطانیہ کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں کے لوگ اپنی تعطیلات کے لئے ہمشیہ ہی بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم کہا جا رہا کہ اس مرتبہ زیادہ تر لوگ ایک مرتبہ پھر تعطیلات اپنے روایتی انداز میں ہی منائیں گے، یعنی گھومیں گے، پھریں گے، ناچیں گے، گائیں گے اور عیش کریں گے۔

اس مرتبہ برطانیہ کے بہت سے شہریوں نے تعطیلات منانے کے لئے بیرون ملک جانے سے پرہیز کیا اور اپنی تعطیلات کے لئے بجٹ اس طرح بنائے کہ زیادہ سے زیادہ رقم بچائی جا سکے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ جاننے کے لئے آپ کو لئے چلتے ہیں مارگیٹ کے ساحلِ سمندر پر، جو برطانوی دارالحکومت لندن سے صرف 60 میل کی مسافت پر واقع ہے۔

Sommer in Beach Club in Offenbach am Main
یورپی سیاح زیادہ تر تعطیلات بیچوں پر مناتے ہیںتصویر: AP

یہ ایک تعطیلاتی مقام ہے۔ اگرچہ برطانوی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس مرتبہ گھومنے پھرنے کے لئے نہ تو اسپین کے دلفریب ساحلوں کی طرف گئی اور نہ ہی پرکشش نظاروں کو اپنی یادوں میں سمیٹنے کے لئے اس نے اٹلی کا رخ کیا۔

اس صورتحال میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ اگر سیاحوں نے بیرونی ملکوں کا رخ نہ کیا تو مارگیٹ کے ساحلی تعطیلاتی مقام پر شاید لوگوں کا ایک بڑا ہجوم ہو گا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔

اس سیاحتی مقام کے مقامی باسیوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایسے بہت سے پرکشش سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے، جس کے نتیجے میں لوگ اب ایسی جگہوں کا رخ کم ہی کرتے ہیں۔

تاجر برادری سے وابستہ لیزلی ہاورڈ گزشتہ 50 برسوں سے مارگیٹ میں رہائش پذیرہیں۔ وہ اس بات کا بغورجائزہ لیتی رہی ہیں کہ حکومت نے اس سیاحتی مقام کو دلکش بنانے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں :’’ ایک وقت ایسا تھا، جب یہ منصوبہ بندی کی جا رہی تھی کہ اس مقام کو عمر رسیدہ اور ریٹائرڈ شہریوں کے لئے پر کشش بنایا جائے۔ اُس وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ جگہ بہت پرسکون بنا دی جائے گی، جہاں نوجوانوں کے لئے کشش اور تفریح کا کوئی سامان نہیں ہوگا۔ اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مقام کو نوجوانوں کے لئے دلفریب بنایا جائے گا، جہاں میوزک کنسرٹ ہوں گے، Gay پریڈز کا اہتمام کیا جائے گا اور یوتھ کو متوجہ کرنے کے لئے یہاں سکوٹر اور موٹر سائیکلیں بھی موجود ہوں گی۔ لیکن اب یہاں کی مقامی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ اس سیاحتی مقام کو Coffee City بنا دیا جائے گا، جہاں راستوں میں کافی ٹیبل رکھ دئے جائیں گے۔‘‘

اگرچہ اس علاقے میں سیاحوں کی تعداد انتہائی کم ہے لیکن یہاں کی مقامی تاجر برداری کے خیال میں اس مقام میں اتنی کشش تو ہے ہی کہ یہ جگہ برطانوی سیاحوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

Weihnachten in Australien
حالیہ عالمی مالیاتی بحران نے سیاحت کی صنعت پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیںتصویر: AP

جیمی ڈَوبسن (Jamie Dobson) ایک فینسی ڈریس شاپ کے منیجر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’میرے خیال میں اس وقت ہم برطانوی سیاحوں کو اپنے سیاحتی مقامات کی طرف آسانی کے ساتھ راغب کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ایئر پورٹس پر چار چار گھنٹے بیٹھ کر انتظار نہیں کرنا چاہتے۔ اس وقت غیر ممالک کے سفر میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اضافی لاگت اس کے علاوہ ہے۔ اس لئے لوگوں کو مارگیٹ جیسے کئی دلفریب مقامات کی طرف پلٹنا چاہئے، جو بیرونی ملکوں میں واقع کئی ساحلی تعطیلاتی علاقوں سے بہت بہتر ہیں۔‘‘

مارگیٹ میں نو ایسی Beaches ہیں، جنہیں عالمی سطح پر کئی انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اب یہاں کی مرکزی بیچ خالی اور سُونی ہوتی ہے۔ سیاحت کی صنعت سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف رقم بچانے کے لئے ہی مقامی لوگ بیرونی ملکوں کے بجائے اپنے گھر اور شہر کے قریب ہی واقع ساحل سمندر کا رخ نہیں کریں گے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ چھٹیوں کے دوران انہیں پر فضا اور تازہ ماحول دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ نئے تجربات بھی ہونے چاہئیں۔

گزشتہ 35 سالوں میں برطانوی سیاحوں کی بیرونی ممالک کا رخ کرنے کی شرح میں کبھی بھی سالانہ بنیادوں پر تین فیصد سے زائد کی کمی نہیں ہوئی تھی۔ صرف گزشتہ برس ہی ایسا ہوا تھا کہ یہ شرح یکدم 15 فیصد کم ہو گئی تھی۔ لیکن اب دوبارہ امید کی جا رہی ہے کہ رواں سال اس شرح میں دوبارہ اضافہ ہو گا، کیونکہ عالمی کساد بازاری کے اثرات اب بہت حد تک کم ہو چکے ہیں۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید