1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تحفظ کے لیے’گوشت ٹیکس‘ کی تجویز

7 اگست 2019

جرمنی میں عام صارفین کے لیے گوشت خوری آئندہ ایک مہنگی عادت ثابت ہو سکتی ہے۔ جرمن اراکین پارلیمان نے تجویز پیش کی ہے کہ تحفظ ماحول اور جانوروں کی فلاح کے لیے ملک میں اب تک مقابلتاﹰ سستے گوشت پر ’میٹ ٹیکس‘ لگا دیا جائے۔

https://p.dw.com/p/3NUrg
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gabbert

یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں سپر مارکیٹوں اور اشیائے خورد و نوش کی دکانوں پر عام شہریوں کو گوشت اب تک قدرے کم قیمت پر دستیاب ہوتا ہے۔ بہت سے دیگر ممالک کے مالیاتی قوانین کی طرح جرمنی میں بھی خرید و فروخت کی ہر شے پر مقررہ شرح سے ایسا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، جو 'ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ یا VAT کہلاتا ہے۔ اس ٹیکس کی شرح اشیائے تعیش کے لیے 19 فیصد ہے اور اشیائے خوراک کے لیے نصف سے بھی کم  یعنی صرف سات فیصد۔

جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے اراکین پارلیمان نے اب یہ تجویز پیش کی ہے کہ ملک میں گوشت کے استعمال میں کمی کی خاطر اور اس طرح تحفظ ماحول اور جانوروں کی بہتری کے لیے 'گوشت ٹیکس‘ لگا دیا جائے۔

یہ مجوزہ ٹیکس عملاﹰ کوئی نیا ٹیکس نہیں ہوگا لیکن اس کے ذریعے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ گوشت اور گوشت کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی صورت میں وی اے ٹی کی شرح سات فیصد سے بڑھا کر 19 فیصد کر دی جائے۔

گوشت کا شمار بھی 'اشیائے تعیش‘ میں

اس طرح اگر یہ تجویز منظور ہو گئی، تو گوشت خور جرمن صارفین کو آئندہ مختلف جانوروں کے گوشت اور ان کے گوشت سے بنی مصنوعات پر 12 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ تب ٹیکس کی شرح کے لحاظ سے گوشت اشیائے خوراک کے بجائے اشیائے تعیش میں شمار کیا جانے لگے گا۔

گرین پارٹی کے زرعی سیاسی امور کے ترجمان فریڈرش اوسٹن ڈورف کے مطابق، ''میں اس بات کے حق میں ہوں کہ گوشت او گوشت کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں موجودہ رعایت ختم کر کے اس کی شرح سات سے 19 فیصد کر دی جائے۔ اس طرح حکومت کو جو اضافی مالی وسائل حاصل ہوں، وہ تحفظ ماحول کے اقدامات اور جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جائیں۔‘‘

اسی طرح جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے زراعت سے متعلقہ سیاسی امور کے ترجمان رائنر اشپیگِنگ کا بھی کہنا ہے کہ گوشت پر وی اے ٹی کی شرح بڑھا دینے سے عوامی خزانے کو ملنے والا 'گوشت ٹیکس‘ آگے بڑھنے کا ایک بہتر راستہ ہو سکتا ہے۔

چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے زرعی امور کے ترجمان آلبرٹ شٹیگےمان کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی بھی ان تجاویز پر کھلے دل سے غور کر سکتی ہے، لیکن ایک شرط پر، ''ایسا کوئی بھی ٹیکس ایک مثبت تجویز ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اس طرح حاصل ہونے والے اضافی فنڈز کو مویشی پالنے والے کسانوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ زرعی شعبے کے اس حصے کی کاروباری مقابلے کی اہلیت میں بھی اضافہ کیا جا سکے۔‘‘

اپوزیشن کی طرف سے مخالفت

متعدد سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ تجویز ایک ایسے موقع پر پیش کی گئی ہے، جب جرمنی میں گوشت کی پیداواری صنعت مویشیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کے باعث پہلے ہی تنقید کی زد میں ہے۔

جرمن میڈیا کے مطابق ملکی پارلیمان میں اپوزیشن کی جماعتیں، جن میں بائیں بازو کی دی لِنکے اور انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی بھی شامل ہیں، اس تجویز کے خلاف ہیں اور انہوں نے اسے مسترد کر دیا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق دنیا بھر میں گوشت کی پیداواری صنعت ان اقتصادی شعبوں میں شمار ہوتی ہے، جو ماحول دشمن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے سب سے زیادہ اخراج کی وجہ بنتے ہیں۔ یہی کاربن گیس ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے۔

اس پس منظر میں ماحولیاتی ماہرین یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ گوشت کے استعمال میں کمی کر کے بھی تحفظ ماحول کی کوششوں کو واضح طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اسی موقف کی حمایت میں عالمی سطح پر سبزی خوری کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

م م / ع ب / ڈی پی اے، ای پی ڈی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں