ماحولیاتی تبدیلیوں سے کروڑوں افریقی خطرے میں
20 اکتوبر 2021اقوام متحدہ نے 19 اکتوبر منگل کے روز اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس میں افریقہ میں ماحولیات کی تبدیلیوں کے نتیجے میں خوراک سے متعلق عدم تحفظ، غربت اور بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی جیسے ''غیر متناسب کمزوریوں '' کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ نے پہلے ہی متنبہ کر رکھا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے انتہائی نوعیت کے حالات اوربھی زیادہ لوگوں کو اپنے براعظم سے دوسری جگہ ہجرت کے لیے مجبور کر سکتے ہیں۔یہ رپورٹ گلاسگو میں آب و ہوا سے متعلق ہونے والے، سی پی او 26، سربراہی اجلاس سے عین پہلے منظر عام پر آئی ہے۔
گزشتہ برس طوفانوں اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات کی وجہ سے تقریبا ًبارہ لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا تھا۔ یہ تعداد اسی برس تنازعات کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کے مقابلے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
رپورٹ کیا کہتی ہے؟
افریقی یونین کمیشن میں دیہی معیشت اور زراعت کے کمشنر جوزیفا لیونل کوئریا ساکو کا کہنا ہے، اگر اس صورت حال کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے گئے، تو اندازوں کے مطابق سن 2030 تک تقریبا ًپونے بارہ کروڑ انتہائی غریب لوگوں کو شدید قسم کی خشک سالی، سیلابوں اور انتہائی شدید قسم کے موسم کا سامنا کرنا پڑے گا۔''
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ساتھ مشترکہ طور پر محکمہ موسمیات کے عالمی ادارے 'ورلڈ میٹرولاجیکل آرگنائزیشن' (ڈبلیو ایم او) نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انتہائی غریب لوگ وہ ہیں جن کی یومیہ آمدن ایک اعشاریہ نوے(1.90) ڈالر سے بھی کم ہو۔
جوزیفا لیونل کوئریا ساکو کہتے ہیں، ''سب صحارا افریقہ میں، موسمیاتی تبدیلی سن 2050 تک مجموعی گھریلو پیداوار کو تین فیصد تک مزید کم کر سکتی
ہے۔''
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں افریقہ کا حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے تاہم اس بات کی پیشن گوئی بہت پہلے سے کی جاتی رہی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے خطہ افریقہ بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ خطے کی فصلیں پہلے ہی خشک سالی کا شکار ہیں، اس کے بیشتر بڑے شہر ساحلوں پر آباد ہیں اور اس کی زیادہ تر آبادی وسیع تر غربت میں زندگی بسر کرتی ہے۔
افریقہ کے گلیشیئرز پگھل جائیں گے
موسمیات کے عالمی ادارے ڈبلیو ایم او کے سکریٹری جنرل پیٹری ٹلاس کا کہنا ہے کہ افریقہ نے گزشتہ برس بھی دیکھا کہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ جاری ہے، جس سے سطح سمندر میں تیزی سے اضافہ، سیلاب، زمین کھسکنے اور خشک سالی جیسے انتہائی قسم کے موسمی واقعات رونما ہوتے رہے۔ یہ تمام چیزیں ماحولیاتی تبدیلی کے اشارے ہیں۔''
رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگر موجودہ شرح کے مطابق ایسا ہوتا رہا توسن 2040 کی دہائی تک افریقہ کے تینوں گلیشیئرز پگھل کر ختم ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ''مشرقی افریقہ میں باقی بچے آخری گلیشیئرز کا تیزی سے سکڑنا، جن کے مستقبل قریب میں ہی مکمل طور پر پگھلنے کی توقع ہے، زمین کے نظام میں فوری اور ناقابل واپسی تبدیلی کے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔''
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس افریقہ کی سر زمین اور پانی دونوں ہی عالمی سطح کی اوسط سے زیادہ تیزی سے گرم ہوا۔ ''اگر یہی رفتار جاری رہی توسن 2040 کی دہائی تک گلیشیئرز مکمل طور پر ختم ہو جائیں گی۔''
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاص طور پر ماؤنٹ کینیا کے تو ایک دہائی پہلے ہی پگھلنے کی توقع ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ اس طرح ''انسانی سرگرمیوں کے سبب ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشئیرسے مکمل طور محروم ہوجانے والی یہ پہلی پہاڑیاں ہوں گی۔''
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)