1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولایشیا

ماحولیاتی تبدیلیاں اور کشمیر

2 جنوری 2022

متنازعہ علاقے کشمیر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات نہایت نمایاں ہیں۔ ایک خطہ جو اپنے دلفریب قدرتی مناظر کی وجہ سے مشہور ہے، اس کا کل کیا ہو گا؟ فرحانہ لطیف کا بلاگ:

https://p.dw.com/p/453Yc
Farhana Latief
تصویر: privat

کشمیر کو صدیوں سے جنوبی ایشیاء کے نقشے میں ایک اہم سیاحتی مقام کا درجہ حاصل رہا ہے۔ ہر موسم میں اس کے مرغزاروں اور جھیلوں و ندی نالوں کی کیفیت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے، جو دلوں کو چھوتی ہے۔ سردیوں میں برف باری کو دیکھنے اور اس پر پھسلنے کی خواہش رکھنے والے جوق در جوق میدانی علاقوں سے گلمرگ یا دیگر پہاڑی علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ بر ف بار ی یا سردی سے ٹھٹھرنے کا نظارہ ان کے لیے رومان پرور تو ہوتا ہے، مگر مقامی باشندوں کے لیے یہ موسم قیامت سے کم نہیں ہوتا ہے۔ اب تو کئی سالوں سے کشمیر میں گرمیوں میں حرارت بھی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ سر ی نگر میں نہیں بلکہ دہلی یا جے پور میں بیٹھے ہیں۔ اسی طرح سردیوں میں ٹھنڈ بھی شدت کی پڑتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سب ماحولیاتی تبدیلی کی دین ہے۔

پچھلے سال شہرہ آفاق جھیل ولر سے متصل ہمارے قصبہ سوپور میں اس قدر ٹھنڈ پڑ گئی کہ ہمارے گھر کے کچن میں موجود گیس سلنڈر بھی جم گیا۔ جس کی وجہ سے گھر پر کھانا ہی پکایا نہیں جاسکا۔ سردیوں میں غسل خانہ کے نل کو بھی کھلا رکھنا پڑتا ہے، اور اس سے پانی ضائع ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی اس کو بند نہیں کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اس کو بند کرنے کا مطلب ہے کہ پانی پائپ میں رک کر جم جائیگا۔ اگر صرف جم گیا تو خیر ایک دوماہ کے بعد پانی کی روانی شروع ہو جائیگی۔ مگر سائنس کہتا ہے کہ پانی کا حجم جمنے کے بعد پھیل جاتا ہے، جس سے اسٹیل کی پائپ پھٹ جاتی ہے اور پانی کی ترسیل کا پورا سسٹم ہی بدلنا پڑتا ہے۔

اسی طرح گرمیوں میں شاذ و نادر ہی گھروں میں پنکھوں کا استعمال ہوتا تھا۔سری نگر میں درجہ حرارت جب بھی 30ڈگری سیلسیس تک پہنچتا تھا تو فوراً بارش ہوتی تھی۔ اس گرمی کے ساتھ شام کو ٹھنڈی ہوائیں بھی چلتی تھیں۔ مگر اب کئی برسو ں سے ایر کنڈیشنڈ کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہو پاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط موجودہ عالمی مباحثے کا حصہ ہیں اور کشمیر میں ان موسمیاتی تبدیلیوں کی تشخیص اور شناخت کرنا زیادہ مشکل کام نہیں۔

کشمیر میں 2014 میں بڑے پیمانے پر سیلاب آیا۔ بادل پھٹنا، غیر موسمی برف باری اور ژالہ باری تو اب ایک معمول سا بن گیا ہے۔ گلیشیر نہایت تیزی کے ساتھ پگل رہے ہیں۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کشمیر میں پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ پہاڑی علاقوں میں آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ بلا روک و ٹوک بھاری تعداد میں سیاحوں و یاتریوں کی آمد، گاڑیوں میں بے تحاشا اضافہ، اور غیر سائنسی طریقے سے فضلے کو ٹھکانہ لگانا شامل ہے۔ جانوروں کی رہائش گاہوں میں انسانی مداخلت اور پہاڑوں اور جنگلات میں فوج کی موجودگی بھی ماحولیاتی انحطاط کا سبب بن رہی ہے۔

ماحولیاتی تنزلی کے اس پورے رجحان میں، جو موسمیاتی تبدیلیوں کو جنم دیتا ہے، حکومتوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس کا کام ماحولیات پر انسانی سرگرمیوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے ڈھانچے اور میکنزم  ترتیب دینا ہوتا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں حکومتوں نے ماحولیات کی خاطر قانون سازی کی ہے اور ان پر اب سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا جا رہا ہے۔

مگر کشمیر کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں پر خود حکومت ہی ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے، جس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجائے اونچے پہاڑوں پر مو جود گلیشیروں کو مزید نقصان سے بچانے کے، زیادہ سے زیادہ سیاحوں و یاتریوں کو وہاں بھیج کر ان کے جلد سے جلد پگلنے کے سامان مہیا کروائے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ سیاحوں اور تیرتھ یاتریوں کی آمد کو حالات کے معمول پر لوٹنے کے ساتھ نتھی کرتی ہے۔ پوری دنیا میں اور بھارت میں عوام کو بتانے کے لیے کہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں، وہ سیاحوں کی تعداد بتاکر اس کو بطور پروپگنڈہ استعمال کرتی ہے۔

مزید یہ کہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی بھی سرعت کے ساتھ نہ صرف جاری ہے، بلکہ حکومت خود بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جنگلات کی کٹائی میں حصہ لیتی ہے۔ ترقی کے حصول کے لیے ماحول کو نظر انداز کرنا نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت عوام کے وسیع تر اور دیرپا مفاد میں کام کرنے کے بجائے بس وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ماحولیات کو قربان کر رہی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔