ماؤں اور بچوں کی شرح اموات
15 جنوری 2009بھارت میں گزشتہ تین سال سے اقتصادی ترقی کی شرح نو فیصد رہی ہے۔ اس کے باوجود دیہات میں آباد دو تہائی سے زائد آبادی کا بیشتر حصہ صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایک لاکھ میں سے 450 خواتین دوران زچگی ہلاک ہو جاتی ہیں۔ یہ تعداد 1998-99 میں 540 تھی اور اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کے مطابق 2015 تک یہ تعداد 109 ہونی چاہئے۔
بھارتی حکومت نومولودوں اورخواتین کی دوران زچگی اموات کی شرح میں کمی کی کوششیں کر رہی ہے۔ تاہم یونیسیف کا کہنا ہے کہ ان کوششوں میں حکومتی ناکامی کی وجہ سماجی ناہمواریاں ہیں۔ پھر بھی بھارت میں یونیسیف کے نمائندے کرن ہلشوف صورت حال سے مایوس نہیں۔ ان کا کہنا ہے: "ہم جانتے ہیں کہ ملک میں ہرسال زچگی یا حمل کے دوران مرنے والی 78 ہزار خواتین کی زندگیاں بچانے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔"
کرن ہلشوف نے کہا کہ نومولودوں کے لئے اور حمل اور زچگی کے دوران خواتین کے لئے صحت کی ضروری بنیادی سہولتیں ملک بھر میں دستیاب ہونی چاہئیں۔
بھارت کو درپیش اس مئسلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں دوتہائی خواتین اپنے گھروں پر ہی بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ تاہم بھارت کی مختلف ریاستوں میں دوران زچگی خواتین کی شرح اموات بھی مختلف ہے۔ اترپردیش میں ہر ایک لاکھ میں سے 517 خواتین زچگی کے دوران ہلاک ہو جاتی ہیں جبکہ کیرالہ میں یہ تعداد 110 ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق ملک میں ایک ہزار نومولود بچوں میں سے 57 مرجاتے ہیں۔ یہ شرح بنگلہ دیش اور Eritrea سے بھی زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ نے سماجی اور اقتصادی ترقی کے آٹھ اہداف مقرر کئے ہیں۔ ان میں غربت میں کمی، تعلیم کا فروغ اور ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف جنگ بھی شامل ہے۔ رکن ممالک کو اس حوالے سے 2015 تک طے شدہ نتائج حاصل کرنا ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت ان میں سے نصف اہداف کو مقررہ مدت میں حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یونیسیف کے مطابق ہزاریہ ترقیاتی اہداف کے تناظر میں بھارت کو بچوں اور ماؤں کی شرح اموات میں دو تہائی کمی لانا ہوگی۔