لکی مروت کے بعد کوہاٹ میں حملہ، اکیس ہلاک
8 ستمبر 2010بتایا جارہا ہے کہ بظاہر پولیس کو نشانہ بنائے جانے کی اس واردات میں خواتین اور بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد چھ بتائی جارہی ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے مجموعی طور پر بیس ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ کوہاٹ کی ضلع انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر خالد خان نے بتایا ہے کہ ایک گاڑی میں رکھا گیا بم پھٹنے سے یہ ہلاکتیں ہوئی تاہم فی الحال یہ واضح نہیں کہ گاڑی پولیس ہیڈکوارٹر میں کھڑی تھی یا کوئی خودکش حملہ آور اسے چلاتے ہوئے اندر تک لایا تھا۔
کوہاٹ کے پولیس ہیڈکوارٹر پر کئے گئے اس حملے کے سے وہاں رہائش پذیر اہلکاروں کے مکانوں اور دوسری ملحقہ عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ دھماکے کے بعد عمارت کی بجلی منقطع ہونے سے امدادی کاموں میں بھی دشواری پیش آئی۔ پاکستانی طالبان کے ترجمان اعظم طارق نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حکومتی تنصیبات اور اہلکاروں کومزید نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھنے کی دھمکی دی ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان میں دہشت پسندانہ کارروائیوں کی ایک نئی لہر دیکھی جارہی ہے۔ جمعہ کو کوئٹہ میں شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے القدس ریلی پر کئے گئے خودکش حملے میں کم از کم 59 انسانی جانیں ضائح ہوئی تھیں۔ اس سے قبل بدھ کو لاہور میں حضرت علی کے یوم شہادت کے سلسلے میں نکالے گئے شیعوں کے ماتمی جلوس کو تین خودکش حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس میں بھی کم از کم چالیس افراد ہلاک ہوئے تھے اور ابھی پیر کو خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس کی ایک عمارت پر کئے گئے حملے میں کم از کم بیس افراداپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔
محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان بھر میں محض گزشتہ تین سال میں 3700 افراد دہشت گردی کی نظر ہوچکے ہیں۔ عسکریت پسندوں نے ڈرون حملوں اور پاکستانی فوج کی قبائلی علاقوں میں فعال انتہاپسندوں کے خلاف اپریشنز کے خلاف ملک اور بیرون ملک اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم کا اعادہ کیا ہے۔
دریں اثنا پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دہشت گردی کی تازہ لہر کوکامیاب فوجی آپریشن کا ردعمل قرار دیا ہے۔ قریشی نے یہ بات لزبن میں اپنے پرتگالی ہم منصب لُوئیس اماڈو سے ملاقات کے بعد کہی۔ پاکستانی وزیر نے کہا کہ عسکریت پسند معصوم شہریوں کو نشانہ بناکر حکومت کے عزم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عابد حسین