لڑکیوں کی تعلیم: طالبان کی صفوں میں اختلافات
26 دسمبر 2008تحریک طالبان کی مرکزی قیادت نے وادیء سوات کے طالبان کے اس فیصلے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سوات کے مقامی طالبان کا فیصلہ ہے جس کا مرکزی قیادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان مولوی عمر کا کہنا ہے کہ مرکزی قیادت نے سوات کے طالبان کو یہ فیصلہ واپس لینے کے لئے ان سے رابطہ کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ طالبان صرف ان عمارتوں کو نشانہ بناتے ہیں، جو سیکیورٹی فورسسز کے استعمال میں ہوں۔ سوات میں طالبان کے نائب امیر شاہ دوران نے اپنے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سے اعلان کیا تھا کہ خواتین کے سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند کئے جائیں، بصورت دیگر 15جنوری سے ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
اُنہوں نے والدین کو متنبہ کیاکہ وہ لڑکیوں اور خواتین کو سکولوں میں نہ بھیجیں۔ طالبان کے مطابق جب تک سوات میں شرعی نطام نافذ نہیں ہوتا، وہ خواتین کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ طالبان ایک عرصےسے خواتین کی ملازمت اور تعلیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مینگورہ کے ایک نجی تعلیمی ادارے سے وابستہ معلمہ شازیہ کہتی ہیں کہ سوات کے لوگ بے پناہ مشکلات کاسامنا کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ اس جنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئی ہیں۔ خواتین نہ تو ملازمت کرسکتی ہیں اور نہ ہی بچیاں سکول جاسکتی ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ضلع سوات میں1580ہائی، مڈل اور پرائمری سکول ہیں جبکہ نجی تعلیمی ادارے اس کے علاوہ ہیں۔ طالبان نے گزشتہ ایک سال کے دوران 152سے زیادہ سکولوں کو تباہ کیا ہے، جن میں اکثریت گرلز سکولوں کی ہے۔ اِن اسکولوں کی تباہی سے 50 ہزار سے زیادہ طالبات تعلیم سے محروم ہوئی ہیں۔
تعلیمی اداروں کی بندش اور تباہی پر سرحد حکومت کے ترجمان اور اطلاعات کے صوبائی وزیر میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ حکومت تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں کی بحالی کے لئے سروے مکمل کرچکی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اِن سکولوں کی تعمیر ومرمت کے لئے رقم مختص کی گئی ہے اور اِن کی تعمیرِ نو کا کام عنقریب شروع کیا جائے گا۔