1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’لونی کی ہلاکت‘ حکام کے انصاف کے وعدے

3 فروری 2019

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم رکن محمد ابراہیم عرف ارمان لونی کی ہلاکت کا وزیراعلیٰ جام کمال نے نوٹس لے لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3CdBf
Pakistan Sadiq Zharak in Quetta
تصویر: shal.afghan

وزیراعلیٰ جام کمال کی جانب سے کوئٹہ میں جاری کیے گئے ایک بیان میں کمشنر ژوب ڈویژن کو ارمان لونی کی ہلاکت کی تحقیقات کر کے اڑتالیس گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

انصاف ضرور ملے گا

محکمہ داخلہ بلوچستان کے ایک سینیئر اہلکار محمد شکیل کا کہنا ہے کہ ارمان لونی کی ہلاکت کی وجوہات جاننے کے لیے بھرپور کارروائی کی جا رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’لورالائی میں یہ واقعہ ایک احتجاج کے بعد پیش آیا ہے۔ ہم تمام پہلوؤں سے اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر فوری کارروائی کی جا رہی ہے اور کمشنر ژوب ڈویژن خود اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں تحقیقاتی رپورٹ کے سامنے آنے تک انتظار کرنا ہو گا۔ اگر نا انصافی ہوئی ہو گی تو متاثرین کو انصاف ضرور ملے گا۔‘‘

محمد شکیل نے مزید بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر اب تک درج نہیں کی گئی ہے کیونکہ دی گئی درخواست پر قانونی چارہ جوئی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا،’’چونکہ یہ ایک اہم اور قابل غور معاملہ ہے اس لیے حکومت کی کوشش ہے کہ کسی فیصلے سے قبل تمام دستیاب شواہد کا جائزہ لیا جائے۔ کمشنر ژوب ڈویژن کی نگرانی میں اڑتالیس گھنٹوں تک یہ تحقیقات مکمل ہو جائیں گے، جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان اس پر مزید کارروائی کے احکامات جاری کریں گے۔‘‘

ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے

بلوچستان کے صوبائی وزیر زمرک خان اچکزئی نے کہا ہےکہ ارمان لونی کی ہلاکت کے معاملے پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’لورالائی ایک پشتون اکثریتی ضلع ہے۔ اس علاقے میں حال ہی میں بد امنی کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ حکومت قیام امن کی بحالی کے لیے کام کر رہی ہے اور ڈی آئی جی ژوب ڈویژن کے دفتر پر حملے کے بعد سے سکیورٹی بھی سخت رکھی گئی ہے۔ پی ٹی ایم رکن کی ہلاکت کا معاملہ قانون کے دائرے میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے حکومت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔‘‘

زمرک خان اچکزئی کا مزید کہنا تھا کہ ارمان لونی کی ہلاکت پر حقائق سامنے آنے سے قبل تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔ ڈبلیو سے گفتگو کے دوران انہوں نے مزید کہا،’’شہریوں کی جان ومال کا تحفظ حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ فی الوقت ارمان لونی کی ہلاکت کے حوالے سے یکطرفہ موقف سامنے آیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ تحقیقات کے نتیجے میں یہ صورتحال کھل کر سامنے آجائے گی۔‘‘

 

نماز جنازہ اور ہڑتال

پی ٹی ایم کے سینیئر رکن اور کور کمیٹی کے ممبر ارمان لونی کی نماز جنازہ آج اتوار کو قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں ادا کی جائے گی، جس کے بعد ان کی تدفین تلری نامی قبرستان میں ہو  گی۔ دوسری جانب لورالائی میں پر امن احتجاج کے دوران مبینہ تشدد سے پی ٹی ایم رکن کی ہلاکت کے خلاف بلوچستان بھر میں آج احتجاج کے طور پر شٹر ڈاون ہڑتال کی جا رہی ہے۔ اس ہڑتال کی کال پشتون قوم پرست جماعت، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کی جانب سے دی گئی ہے۔

بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی سمیت صوبے کی بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی ہڑتال کی حمایت کی ہے۔ شٹر ڈاون ہڑتال کے باعث صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے اکثر دیگر علاقوں میں تمام کاروباری مراکز بند ہیں اور ٹریفک بھی معمول سے کم دکھائی دے رہی ہے۔ ارمان لونی کی ہلاکت کی ذمہ دار ان کی اہل خانہ نے مقامی پولیس کو ٹہرایا ہے۔

اے ایس پی عطاء الرحمن ترین پر الزام

عبدالقیوم نامی شخص کی جانب سے اس حوالے سے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے پولیس تھانہ صدر لورالائی کو دی گئی درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہےکہ ابراہیم عرف ارمان لونی کو اے ایس پی، عطاء الرحمن ترین کی ایماء پر تشدد کر کے مبینہ طور پر قتل کیا گیا ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ہفتہ 2 فروری کی شام کو پانچ بجکر پچاس  منٹ پر لورالائی میں پبلک لائبریری کے قریب اے ایس پی، عطاء الرحمن ترین نے دیگر اہلکاروں کے ہمراہ پی ٹی ایم کارکنوں کو روکا۔ درخواست گزار کے بقول پولیس افسر نے ان سے ارمان لونی کے بارے میں پوچھا اور جب انہیں تعارف کرایا گیا تو انہوں نے دیگر اہلکاروں کو لونی کے قتل کا حکم دیا۔

درخواست گزار نے مزید کہا ہے کہ مذکورہ پولیس افسر نے خود بھی ارمان لونی پر کلاشکوف کے بٹ سے مبینہ طور پر وار کیے، جس کے باعث ان کے سر اور جسم کے دیگر حصوں پر شدید چوٹیں آئیں اور انہیں بروقت اسپتال لے جانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی اسی لی ارمان لونی دم توڑ گئے۔

Pakistan Manzoor Pashteen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

پی ٹی ایم کا موقف

 پشتون تحفظ موومنٹ لورالائی کے رہنماء خوشحال پشتون نے کہا ہے کہ لورالائی میں پولیس نے پی ٹی ایم کے پر امن احتجاج کو ختم کرنے کے لیے بلاوجہ تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکن ڈی آئی جی پولیس ژوب ڈویژن کے  دفتر پر شدت پسندوں کے حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ گزشتہ چارایام سے ہمارے کارکن پریس کلب کے باہر دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ لورالائی پولیس نے دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے بھی ہمارے پر امن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی مگر جب وہ کامیاب نہیں ہوئے تو انہوں نے تشدد شروع کیا۔ ارمان لونی کو بلاوجہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘

خوشحال پشتون کا کہنا تھا کہ ہمیں حقوق کے لیے شروع کی گئی احتجاجی تحریک سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول، ’’صرف لورالائی میں ہی نہیں کوئٹہ میں بھی ہمارے کارکنوں پر طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔ سانحہ لورالائی کے خلاف احتجاج کرنے والے پی ٹی ایم کے چھ کارکنوں کو بلاوجہ گرفتار کیا گیا، جنہیں سات روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا۔ ہمارے ان ساتھیوں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ شدت پسندی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔‘‘

کوئٹہ میں گرفتار کیے گئے پی ٹی ایم کے 6 کارکنوں کے خلاف مقامی تھانے میں شہریوں کو ریاست کے خلاف اکسانے، سرکاری کاموں میں مداخلت کرنے اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے محکمہ داخلہ نے گزشتہ سال 9 دسمبر کو پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین پر صوبے میں 90  روز تک داخلے پر پابندی بھی عائد کی تھی۔ اس پابندی کے خلاف پی ٹی ایم نے کوئٹہ سمیت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا تھا۔

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب