1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاما سلیمان، شامی کم جرمن زیادہ

31 اگست 2020

سن 2015 میں شام سے جرمنی ہجرت کرنے والے ایک خاندان میں لاما سلیمان بھی شامل تھی۔ تب وہ چار برس کی تھی۔ اب وہ خود کو شامی کم اور زیادہ جرمن خیال کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3hoAQ
Türkei Kahramanmaras 2019 | Flüchtlinge aus Syrien | Schulunterricht
تصویر: Getty Images/B. Kara

سن 2015 وہ سال تھا جب لاکھوں تارکین وطن جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک پہنچی تھے۔ ان مہاجرین میں زیادہ تر کا تعلق جنگ زدہ اور تنازعات کے شکار ملکوں سے تھا۔ کئی افراد نے اپنے ملکوں میں پائی جانے والی غربت سے نجات پانے کے لیے بھی ہجرت کی تھی۔ انہی میں شام کی خانہ جنگی سے بچ کر نکلنے والا لاما سلیمان کا خاندان بھی تھا۔ جب اس کے خاندان نے یہ مشکل سفر اختیار کیا تب وہ صرف چار برس کی تھی۔ 

اب لاما سلیمان تقریباً نو سال کی ہونے والی ہے۔ وہ ایک اسکول میں داخل ہے۔ وہ اپنے سات سالہ بھائی جُود اور دو دیگر چھوٹے بھائیوں کے ساتھ جرمن زبان میں گفتگو کرنے میں آسانی محسوس کرتی ہے۔ اس کی زبان پر مہارت کئی مہاجرین سے زیادہ ہے اور وہ اپنے والدین کی بھی زبان سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ جب عربی میں گفتگو کرتی ہے تو اس میں بھی وہ کئی جرمن الفاظ شامل کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ 
لاما سے جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ اس کا ملک کونسا ہے تو اس نے کہا،’’ میں تو جرمن ہوں اور بس تھوڑی سی شامی‘‘۔ سن 2015 میں جب اس کے والدین نے ہجرت کا سفر اختیار کیا تو وہ چار برس کی اور بھائی جُود دو سال کا تھا۔ اس کے ایک اور بھائی کَرم کی عمر دس ماہ تھی۔ تیسرا بھائی سام تو پیدا ہی جرمنی میں ہوا ہے۔ سن 2015 میں چار سالہ لاما صرف عربی زبان بول سکتی ہے۔ لاما کی والدہ نے روتے ہوئے بتایا کہ جرمنی پہنچنے کا خطرناک سفر رات کے وقت ترکی سے ایک چھوٹی سی ربڑ کی کشتی پر سوار ہو کر شروع کیا تھا۔ بحیرہ روم سے گزر کر وہ یونان پہنچے اور وہاں سے یہ خاندان مقدونیہ، سربیا، کروشیا اور ہنگری سے آسٹریا اور پھر جرمن سرزمین پر پہنچ گیا۔

 

 لاما سلیمان کو اس سارے سفر کی تکالیف اور مشکلات یاد بھی نہیں ہیں بلکہ اس کے دماغ میں شام بھی دھندلانے لگا ہے۔ اسے وہاں کے انتہائی خطرناک حالات بارے بھی اب کوئی معلومات نہیں لیکن اس کے والدین خوفناک بمباری اور دھماکوں کو یاد کر کے اب بھی لرز اٹھتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ویسے بھی شام لاما کے والدین کا ملک ہے اور وہاں اس کے بعض قریبی رشتہ دار اب بھی گزر بسر کر رہے ہیں۔ 
لاما کے والدین کو آج کل ایک اور پریشانی کا سامنا ہے اور وہ گزشتہ چار برسوں سے جرمن دارالحکومت برلن میں ایک اپارٹمنٹ تلاش کر رہے ہیں تا کہ ان کے بچوں کو اسکول تک جانے میں آسانی ہو۔ لاما کو ریاضی کا مضمون بہت پسند ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اسکولوں میں براہِ راست تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے سے لاما کی بعض مضامیں میں کمزوری آڑے آئی اور ٹیچر نے اسے اگلی کلاس میں پاس نہیں کیا۔ اس طرح لاما کو دوبارہ سے دوسری جماعت پڑھنا پڑے گی۔ ٹیچر کے اس فیصلے سے لاما اور اس کے والدین کو بہت دکھ ہوا لیکن اب سب معمول پر آ چکا ہے۔ لاما کی پریشانی یہ بھی تھی کہ وہ اور اس کا چھوٹا بھائی جُود اب ایک ہی کلاس میں ہیں۔ وہ بڑے ہو کر دانتوں کی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ 

وکٹوریا کلیبر (ع ح، ع ا)