قیدیوں سے بھری فرانسیسی جیلیں: اصلاحات کا حکومتی منصوبہ
18 مارچ 2013یہ معاملہ فرانس کی قیدیوں سے بھری جیلوں میں اصلاحات کا ہے۔ خاتون وزیر انصاف کرسٹین توبِیرا ملک میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ترقی پسند سیاسی حلقوں کی پسندیدہ شخصیت ہیں اور یہ وزیر پیرس کی قومی پارلیمان سے اپنے خطاب کے دوران اکثر شعر و شاعری بھی کرتی ہیں۔ انہیں اور وزیر داخلہ مانوئل والس کو ایک دو رکنی ٹیم کے طور پر سوشلسٹ صدر فرانسوآ اولاند کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ جیلوں کے شعبے میں اصلاحات کو یقینی بنائیں جو کہ سماجی سطح پر صدر اولاند کے اصلاحات کے پروگرام کا اگلا مرحلہ ہے۔
بہت سے فرانسیسی ماہرین قانون اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ فرانس کی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی رکھے جانے کے مستقل مسئلے کا ترجیحی بنیادوں پر کوئی نہ کوئی حل نکالا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے فعال یورپی تنظیم کونسل آف یورپ نے تو ابھی حال ہی میں فرانس کی ایک بہت بڑی جیل میں پائے جانے والے حالات کو انتہائی ناپسندیدہ اور قابل نفرت بھی قرار دے دیا تھا۔
فرانس میں کل 191 جیلیں ہیں۔ ان میں سے کچھ تو اتنی پرانی ہیں کہ ان کی تعمیر قرون وسطیٰ میں کی گئی تھی۔ فرانسیسی جیلوں کو مجموعی طور پر یورپ کی سب سے خستہ حال جیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان جیلوں میں چوہوں اور کاکروچوں کا پایا جانا، گٹروں کا بند ہونا یا جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیروں کا نظر آنا معمول کی باتیں ہیں۔
فرانسیسی جیلوں میں قید سزا یافتہ افراد میں سے ہر دس میں سے ایک منشیات استعمال کرتا ہے۔ ان قیدیوں میں خود کشی کی شرح فرانس میں خود کشی کی قومی شرح کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ فرانسیسی جیلوں میں قیدیوں میں ایچ آئی وی وائرس کے شکار افراد کی شرح بھی ملک میں ایسے افراد کے مجموعی تناسب کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔
ان اصلاحات پر پارلیمان میں آئندہ ہونے والی بحث کے دوران سوشلسٹ صدر اولاند پر دائیں بازو کے ارکان کی طرف سے شدید تنقید کی توقع ہے۔ فرانسوآ اولاند کو پہلے ہی اپنی عوامی مقبولیت میں کمی کا سامنا ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
فرانسیسی صدر نے فروری میں ملک میں لاکھوں قدامت پسند شہریوں کے احتجاجی مظاہروں کے باوجود پارلیمانی ایوان زیریں میں وہ بل پیش کر دیا تھا، جس کے تحت ہم جنس پرست افراد کو قانونی طور پرشادی کی اجازت دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ ہم جنس پرست افراد کی قانونی شادیوں سے متعلق مسودہء قانون اور اب جیلوں میں اصلاحات کا منصوبہ دو ایسے لازمی فیصلے ہیں جو فرانسوآ اولاند کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کو خوش رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ فرانسیسی صدر عوامی سطح پر بہت سے ایسے غیر مقبول اقدامات پر بھی مجبور ہیں، جن کے تحت وہ عوامی شعبے میں ریاست پر قرضوں کے بے تحاشا بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
موجودہ حکومت جیلوں کے شعبے میں اصلاحات کے جس پروگرام پر عملدرآمد کی کوشش کر رہی ہے، اس کے تحت نکولا سارکوزی کی جرائم کو بالکل برداشت نہ کرنے کی ایک عشرے پرانی پالیسی انتہائی حد تک تبدیل ہو جائے گی۔ نکولا سارکوزی نے یہ پالیسی اُس وقت متعارف کرائی تھی جب وہ خود صدر بننے سے پہلے سابق صدر ژاک شیراک کی کابینہ میں ایک سخت گیر وزیر داخلہ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔
سارکوزی کی اسی پالیسی کی وجہ سے پچھلے ایک عشرے کے دوران فرانسیسی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہوا اور اب یہ تعداد 70 ہزار کے قریب ہے۔ جیلوں میں قید افراد کی تعداد میں اضافے کی یہ شرح فرانس کی مجموعی آبادی میں اضافے کی قومی شرح کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔
فرانس میں کل 200 کے قریب جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے اتنی زیادہ ہے کہ کئی جیلوں میں قیدی راہداریوں میں چٹائیوں پر سوتے ہیں۔ خاتون وزیر انصاف نے وزیر داخلہ کے ساتھ مل کر اب اصلاحات کا جو پروگرام بنایا ہے، اس کے مطابق کسی ملزم یا مجرم کو جیل بھیجنا آئندہ آخری فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس سے قبل ایسے جرائم کے مرتکب افراد کے لیے جو انتہائی سنجیدہ نوعیت کے نہ ہوں، جرمانے کی سزا، علاج یا پھر سماجی تربیت کے راستے اختیار کیے جانے چاہیئں۔
فرانس میں جیلوں میں اصلاحات سے متعلق ایک باقاعدہ مسودہء قانون کی صورت میں یہ تجاویز موسم بہار میں پارلیمان میں پیش کر دی جائیں گی۔ 2009ء کے ایک جائزے کے مطابق 77 فیصد فرانسیسی باشندوں کا خیال ہے کہ حکومت کی جیلوں سے متعلق اب تک کی پالیسی ملک میں جرائم کو کم کرنے میں کوئی مدد نہیں دے رہی۔
(mm / ia (Reuters