قزاق بحیرہء احمر سے بحری جہاز اغوا کرنے میں کامیاب
19 جنوری 2014اتوار کے روز کینیا کے بحری حکام کی جانب سے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ہفتے کی شام ایم وی مرزوقہ نامی اس جہاز سے بے ربط سگنل بھیجے گئے، جس کے بعد یہ جہاز خلیج عدن کی طرف مڑ گیا۔ کینیا کی سی فیررر یونین کے سیکریٹری جنرل انڈریو موانگورا نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ یہ واقعہ ہفتے کی شام پیش آیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس بحری قزاقی کی وارداتوں میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی، جس کی وجہ بحیرہء احمر اور بحر ہند میں بین الاقوامی نیول کوششیں ہیں، جن میں سمندری پانیوں کی نگرانی کے لیے متعدد ممالک کے بحری جہازوں کا مسلسل گشت شامل ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک صومالیہ میں خشکی پر موجود مسلح گروہوں کا قلع قمع نہیں ہو جاتا، اس وقت تک بحری قزاقی کے خطرات مسلسل لاحق رہیں گے۔
صومالیہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران نسبتاﹰ استحکام دیکھا گیا ہے، تاہم پچھلے 20 برس سے خانہ جنگی اور بدامنی کے شکار اس ملک میں متعدد مسلح گروپ اب بھی متحرک ہیں۔ مبصرین کے مطابق صومالیہ میں استحکام سے بحری قزاقی کے واقعات میں کمی کی امید تو ضرور پیدا ہوئی ہے، تاہم یہ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔
کینیا کے بندرگاہی شہر مومباسا میں روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے موانگورا نے کہا، ’ہم اب اس جہاز کا تعاقب کر رہے ہیں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اسے قزاقوں کے کس گروپ نے اغوا کیا ہے اور ان کے مطالبات کیا ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس بحری جہاز پر بھارتی، مصری اور شامی شہریوں پر مشتمل عملے کے ارکان موجود ہیں، جب کہ اسے اغوا کرنے والے مسلح قزاقوں کی تعداد آٹھ تا نو ہے، تاہم انہوں نے عملے کے ارکان کی تعداد نہیں بتائی۔
خیال رہے کہ اس جہاز پر سن 2011ء میں بھی قزاقوں نے حملہ کیا تھا، تاہم اس وقت یہ جہاز اغوا ہونے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
یورپی یونین کی بحری فورس نے بھی اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ واقعہ اس کی عمل داری سے باہر پیش آیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ جہاز اب ہائی جیکروں کے کنٹرول میں ہے۔