قبر کے اندر سے تابوت کھٹکھٹانے کی آوازیں، پولیس بلا لی گئی
30 جولائی 2018جرمنی کا بہت تھوڑی آبادی والا اور چھوٹا سا جنوب مغربی صوبہ زارلینڈ فرانس کے ساتھ سرحد پر واقع ہے۔ زارلینڈ کے صوبائی دارالحکومت زاربروکن سے پیر تیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس وفاقی صوبے میں لوزہائم کے مقام پر ایک 56 سالہ شخص نے اتوار انتیس جولائی کو بڑی پریشانی کے عالم میں مقامی پولیس کو فون کیا۔
اس شخص نے ایمرجنسی نمبر پر کال کر کے پولیس کو بتایا کہ اس نے لوزہائم کے قبرستان میں، جہاں وہ اپنے ایک عزیز کی قبر پر گیا ہوا تھا، ایک قبر کے اندر سے ایسی آوازیں سنی تھیں، جیسے قبر میں دفن کردہ تابوت کو اندر سے کھٹکھٹایا جا رہا ہو۔ اس شہری نے پولیس کو بتایا کہ ممکن ہے کہ اس قبر میں کسی ایسے انسان کو دفنا دیا گیا ہو، جو ابھی تک زندہ ہو۔
اس اطلاع کے بعد مقامی پولیس اہلکار اپنی دو گاڑیوں میں اور فائر بریگیڈ کی ایک ایمبولینس کے ساتھ فوراﹰ ہی موقع پر پہنچ گئے۔ ان پولیس اہلکاروں اور ہنگامی امدادی کارکنوں نے پہلے اس قبر کا باہر سے مشاہدہ کیا، جس کی نشاندہی پولیس کو فون کرنے والے شہری نے کی تھی۔ پھر اس قبرستان میں دیگر تمام قبروں کا بھی اچھی طرح جائزہ لیا گیا تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ اگر کسی قبر سے ’تابوت کھٹکھٹانے کی‘ آوازیں آ رہی تھیں، تو وہ کون سی قبر ہو سکتی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد جب پولیس اور فائر بریگیڈ کے اہلکار اس قبرستان کی تمام قبروں کا بیرونی جائزہ لے چکے، تو نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ سننے والے کو شاید دھوکا ہوا تھا یا پھر محض غلط فہمی کہ ایک قبر کے اندر سے تابوت کھٹکھٹانے کی آوازیں آ رہی تھی۔
متعلقہ شہری لیکن کافی دیر تک پولیس کی موجودگی میں قبرستان میں موجود رہا اور یہ اصرار کرتا رہا کہ اس نے یہ آوازیں خود اپنے کانوں سے سنی تھیں۔
دوسری طرف پولیس کا کہنا تھا کہ لوزہائم کے قبرستان میں تمام قبریں اپنی اصلی حالت میں تھیں، کہیں کسی توڑ پھوڑ کے نشانات نہیں تھے اور بالکل تازہ قبر بھی کوئی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ جس قبر سے اس 56 سالہ مقامی شہری نے آوازیں سننے کا دعویٰ کیا تھا، وہاں جو خاتون دفن کی گئی تھی، اسے مرے ہوئے بھی مدت ہو چکی تھی۔
اس واقعے کے بارے میں فائر بریگیڈ کے ایک کارکن نے کہا، ’’مردے اپنے تابوت پر اندر سے دستک نہیں دیتے۔ وہ تو ابدی نیند سوئے ہوتے ہیں۔ اپنی موت کے برسوں بعد کوئی مردہ اپنا ہی تابوت کھٹکھٹانے لگے، ایسا تو آج تک ہوا نہیں۔‘‘
م م / ش ح / ڈی پی اے