1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’قاتل روبوٹس‘ پر پابندی کے مخدوش امکانات

25 جولائی 2022

مستقبل میں قاتل روبوٹ جنگوں کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کا ادارہ ان کے استعمال کو قانون کے تحت لانا چاہتا ہے لیکن یوکرینی جنگ کی وجہ سے یہ مذاکرات بلا نتیجہ ختم ہونے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4EbL2
Autonome Waffen | Drohnenschwärmen
تصویر: Andy Dean/imagebroker/IMAGO

یہ ڈرون کسی پیزا ڈیلیوری کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ دھماکہ خیز مواد سے لدا ہوا ہے۔ یہ ایک کیمرے اور سینسرز سے لیس ہے جبکہ چار روٹر بلیڈ اسے اُڑاتے ہیں۔ یہ ایک نام نہاد ''کامیکازے ڈرون‘‘ ہے، جو اپنے ہدف کو آزادانہ طور پر تلاش کر سکتا ہے اور خود کار طریقے سے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ الگورتھم ایسا ممکن بناتے ہیں۔ اپنے حملے کے دوران یہ ڈرون خود کو تباہ کرتا ہے اور اپنے پیچھے الیکٹرانک فضلے کا ایک چھوٹا ڈھیر چھوڑ جاتا ہے۔

''کامیکازے ڈرون‘‘ کسی سائنس فِکشن فلم کا حصہ نہیں ہے بلکہ مینوفیکچرر کی پروموشنل ویڈیو میں اسے ایسا کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی ''قاتل ہتھیاروں‘‘ پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے پیر پچیس جولائی سے جنیوا میں تقریباً 80 ممالک مذاکرات کا آغاز کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات کا انعقاد اقوام متحدہ کی کوششوں سے ہو رہا ہے۔

مشینیں، جو انسانوں کو قتل کرتی ہیں

انتہائی خطرناک اور خودکار ہتھیاروں یا ''لیتھل آٹونومس ویپنز‘‘ میں وہ تمام ہتھیار شامل ہیں، جو مشینوں سے کنٹرول ہوتے ہوں یا ان میں ایسی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہو، جو آرٹیفیشیل انٹیلیجنس (مصنوعی دانش) کی حامل ہوں یا ایسی مشینیں، جو کسی انسانی چہرے کو پہچان کر خود ہی گولی چلا دیں۔ مصنوعی دانش کے حامل ''کلرز روبوٹس‘‘ کی تیاریاں کئی ممالک جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جنیوا میں شروع ہونے والے مذاکرات میں سفارت کاروں کو کسی حد تک دباؤ کا سامنا ہے اور یہ دباؤ اس رپورٹ کے اجراء سے پیدا ہوا ہے، جو  گزشتہ برس مارچ میں جاری کی گئی تھی۔ اُس رپورٹ کے مطابق لیبیا میں کیا گیا ایک ڈرون حملہ، وہ پہلا ایسا حملہ تھا، جس میں خود کار ڈرون نے اپنا ہدف خود تلاش کیا تھا۔

Stills aus der DW-Doku "Future wars"
تصویر: DW

ایک سو بیس رکنی غیر جانبدار ممالک کی تنظیم نان الائینڈ موومنٹ (این اے ایم ) نے وینزویلا کی قیادت میں ایسے ہتھیاروں پر لازمی پابندی عائد کرنے کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے۔ ''کِلر روبوٹس‘‘ کے خلاف پہلی مرتبہ سن 2013 ء میں مہم شروع کی گئی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر ایک سو ساٹھ تنظیموں نے آواز اٹھائی تھی کہ انسانوں کو قتل کرنے والی آٹومیٹک مشینوں پر عالمی سطح پر پابندی لازمی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق، ''اب واضح ہو چکا ہے کہ طاقت کے استعمال میں انسانی کنٹرول کا دخل نکال دینا، انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلوں کی طرح اس معاملے پر بھی بین الاقوامی سطح پر ایکشن لینا لازمی ہو گیا ہے۔‘‘

متعدد ممالک کی طرف سے پابندی کی مخالفت

 جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر میں عالمی برادری اس مسئلے پر 2014ء سے بات چیت کرتی چلی آ رہی ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری اس طرح کے خودکار قاتل ہتھیاروں پر پابندی کے معاملے پر عدم اتفاق کا شکار ہے۔ بعض ممالک اس طرح کے ہتھیاروں پر مکمل پابندی کے حق میں ہیں تو بعض ان کی تیاری پر کسی قسم کی پابندی کے مخالف ہیں۔

سب سے بڑھ کر امریکہ، روس اور چین ایسی کسی بھی پابندی یا اس ٹیکنالوجی کو پابند کرنے والے قوانین کے مخالف ہیں۔ ان طاقتور ممالک کو ڈر ہے کہ اس طرح ان کو فوجی اور اسٹریٹیجک حوالے سے نقصان پہنچے گا۔

فوجی سازو سامان کے لیے مزید رقوم

 تو کیا ''قاتل روبوٹس‘‘ پر پابندی لگائے جانے کی کوئی امید نظر آتی ہے؟ فی الحال اس کے بالکل الٹ نظر آ رہا ہے۔ خاص طور پر یوکرین میں جنگ کی وجہ سے یورپی ریاستیں فوج میں زیادہ پیسہ لگا رہی ہیں اور خاص طور پر ایسا جدید ہتھیاروں میں کیا جا رہا ہے۔ جرمنی اپنی فوج میں 100 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔  ایسے منصوبوں میں بھی، جن کے تحت مستقبل کے ایسے جنگی طیارے (ایف سی اے ایس) تیار کیے جا رہے ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق جنیوا مذاکرات میں ماضی کے برعکس جرمنی جیسے ملک کی بھی پوزیشن تبدیل ہوئی ہے اور اب یہ ملک بھی ایسے ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آتا ہے۔

 نینا ویرک ہاؤزر / ا ا / ش ر

قاتل روبوٹ کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں؟