1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیصلہ زہر اور موت کا ہے لیکن ’بات اصول کی ہے‘

9 اگست 2018

امریکی ریاست نبراسکا کے لیے ایک قیدی کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد کا فیصلہ بڑا دردِ سر بن گیا ہے۔ اس کی وجہ ایک جرمن دوا ساز کمپنی کا یہ اصولی مطالبہ ہے کہ سزائے موت کے لیے اس کا بنایا ہوا زہر استعمال نہ کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/32uHR
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی جمعرات نو اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس جرمن دوا ساز کمپنی کا نام ’فریزینیئس‘ (Fresenius) ہے اور اس ادارے کا کہنا ہے کہ وہ اصولی طور پر اپنی غیر جانبداری کی وجہ سے کسی بھی انسان کو سزائے موت دیے جانے کا نہ تو حامی ہے اور نہ ہی مخالف۔

لیکن اس کمپنی کا المیہ یہ ہے کہ ریاست نبراسکا میں ایک مجرم کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے ریاستی محکمہ جیل خانہ جات جو زہر استعمال کرنا چاہتا ہے، وہ اسی کمپنی کا تیار کردہ ہے۔ جرمن فارماسیوٹیکل  کمپنی ’فریزینیئس‘ کا پورا نام ’فریزینیئس کابی‘ ہے اور اس کے تو نام کا مطلب ہی یہ ہے: ’’ہم انسانوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘

Nebraska Hinrichtungskandidat -  Carey Dean Moore
کیری ڈین مور 44 برسوں سے جیل کے ایک ’ڈیتھ سیل‘ میں بند ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/Nebraska Dept of Correctional Services

اس دوا ساز ادارے کا موقف ہے کہ وہ اس بات کو کبھی قبول نہیں کرے گا کہ نبراسکا کی ایک جیل میں ایک سزا یافتہ مجرم کو موت کی نیند سلا دینے کے لیے جو زہریلا ٹیکہ لگایا جائے، اس میں اسی کمپنی کے تیار کردہ کیمیائی مادوں سے بنایا گیا ایک مرکب استعمال ہو۔

’فریزینیئس‘ کے مطابق اس کے لیے یہ معاملہ ایک ’اصول کی بات‘ ہے اور اس کے علاوہ اس طرح اس کے دوا سازی کے ذریعے بیمار ’انسانوں کی مدد کرنے‘ کے اصول اور اس سے جڑی اخلاقی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

نبراسکا میں جس ملزم کو سزائے موت دی جانا ہے، اس کا نام کیری ڈین مور ہے، جو 1974ء سے دو ٹیکسی ڈرائیوروں کے قتل کے جرم میں جیل کے ایک ’ڈیتھ سیل‘ میں بند ہے اور اب اس نے اپنی سزائے موت پر ممکنہ عمل درآمد کے خلاف جدوجہد بھی ترک کر دی ہے۔ نبراسکا میں حکام اب اس کی سزا پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس ریاست میں کسی مجرم کو سزائے موت دینے کا 21 برسوں بعد یہ پہلا اور زہریلے ٹیکے کے ذریعے سزائے موت کا آج تک کا اولین واقعہ ہو گا۔

نبراسکا کا محکمہ جیل کیری ڈین مور کو ہلاک کرنے کے لیے جو ٹیکہ لگانے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ چار ایسے کیمیائی مادوں سے تیار کیا گیا ہے، جن میں سے ایک سے دل کی حرکت بند ہو جاتی ہے۔ لیکن خود ریاستی محکمہ جیل خانہ جات کے لیے بھی یہ ایک پہیلی ہے کہ اسٹیٹ گورنمنٹ نے یہ کیمیائی مادے کہاں سے اور کیسے حاصل کیے۔ اس لیے کہ ’فریزینیئس‘ کی طرف سے اس کی طبی مصنوعات ایسے مقاصد کے لیے کسی بھی ملک میں کسی بھی جیل کو مہیا نہیں کی جاتیں۔

’فریزینیئس‘ کو یقین ہے کہ نبراسکا کی حکومت نے کل چار زہریلے مادوں میں سے اس کمپنی کے تیار کردہ دو طبی زہر غیر قانونی طریقے سے حاصل کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ کمپنی نبراسکا میں ایک سول مقدمے کے ذریعے کیری ڈین مور کی موت کو رکوانے کا ارادہ رکھتی ہے، یا کم از کم اس عمل میں اس ادارے کے تیار کردہ زہر قطعی استعمال نہ کیے جائیں۔ ریاستی حکام کیری ڈین مور کو آئندہ منگل یعنی چودہ اگست کے روز سزائے موت دینے کی تیاریاں کیے ہوئے ہیں۔

’فریزینیئس‘ نے امریکا کی ایک وفاقی عدالت میں یہ درخواست بھی دے دی ہے کہ نبراسکا میں حکام کی طرف سے کیری ڈین مور کے خلاف ان زہریلے طبی مادوں کے استعمال کو حتمی یا کم از کم عبوری طور پر ہی ممنوع قرار دے دیا جائے۔

کئی ایسی امریکی ریاستوں میں جہاں آج بھی قیدیوں کو سزائے موت دی جاتی ہے اور اس کے لیے زہریلے ٹیکے استعمال کیے جاتے ہیں، اس طرح کے ٹیکوں کے لیے زہر یا زہریلے مادوں کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بہت سی دوا ساز کمپنیاں ایسے مقاصد کے لیے ضروری کیمیائی مادے فروخت کرنے پر ‌آمادہ ہی نہیں ہیں۔

اس کی ایک بڑی مثال امریکی ریاست نیواڈا کی ہے، جہاں جیل خانہ جات کو ایسے زہر ’ایلووگن‘ نامی دوا ساز کمپنی کی طرف سے مہیا کیے جاتے تھے۔ لیکن پھر دو ماہ قبل جون میں اس ادارے نے نیواڈا کی ریاست کو ایسے زہریلے مادے مہیا کرنا بند کر دیے تو ریاستی حکام کو عارضی طور پر مجرموں کو سزائے موت دینے کا عمل بھی روک دینا پڑا۔

م م / ش ح / اے پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید