1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیری کی غرقابی: جنوبی کوریائی وزیراعظم مستعفی

امتیاز احمد27 اپریل 2014

کشتی حادثے کے بعد تنقید کا نشانہ بننے والے جنوبی کوریائی وزیراعظم چونگ ہونگ وان نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فیری حادثے میں تین سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ لاشوں کی تلاش کا عمل ابھی تک جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1Bp1Y
تصویر: Reuters

جنوبی کوریائی وزیراعظم پر شدید تنقید کی جارہی تھی کہ سولہ اپریل کو پیش آنے والے سیاحتی فیری کے حادثے کے بعد ان کی حکومت فوری اور مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وزیراعظم چونگ ہونگ وان کا کہنا تھا، ’’ میں معافی مانگتا ہوں کہ میں اس حادثے کو روکنے میں ناکام رہا اور بعدازاں اس کو مناسب طریقے سے نہ سنبھال سکا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ میں وزیراعظم کے طور پر اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور اپنا استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔‘‘

یاد رہے کہ 16 اپریل کو ایک بڑی مسافر کشتی سیاحتی جزیرے جیجو کی جانب جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئی تھی۔ حادثے کے وقت اس کشتی پر کل 476 افراد سوار تھے ، جن میں بڑی تعداد اسکول کے بچوں کی تھی۔ اس حادثے میں ابھی تک 187 افراد کی نعشیں ڈھونڈی جا چکی ہیں اور گیارہ دن گزرنے کے بعد بھی دیگر 115 کی لاشوں کی تلاش جاری ہے۔

ریسکیو آپریشن مناسب طور پر نہ کرنے اور ابھی تک لاشوں کے نہ ملنے کی وجہ سے بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

قومی ٹیلی ویژن پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم چونگ کا کہنا تھا، ’’ حالیہ حادثے کی وجہ سے تمام جنوبی کوریا غم اور صدمے کی کیفیت میں ہے۔ اس حادثے کو کئی دن گزر چکے ہیں لیکن لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی چیخیں مجھے اب بھی راتوں کو سونے نہیں دیتی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرے پیارے ہم وطنوں یہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا وقت نہیں ہے بلکہ ریسکیو آپریشن مکمل کرنے اور اس سے مناسب طریقے سے نمٹنے کا وقت ہے۔ میں آپ سے اس مشکل صورتحال پر قابو پانے کے لیے مدد کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘

اپنی مختصر تقریر کے اختتام پر جنوبی کوریا کے وزیراعظم کا کہنا تھا، ’’ میں یقین کے ساتھ امید کرتا ہوں کہ جنوبی کوریا کے عوام اور کشتی حادثے کے متاثرین مجھے معاف کر دیں گے ۔ میں ایک مرتبہ پھر ریسکیو آپریشن کے لیے آپ کی مدد کی بھیک مانگتا ہوں۔‘‘

کشتی کی غرقابی کے تقریباﹰ 11 روز بعد کسی کے بھی زندہ بچ جانے کی امید نہیں ہے لیکن لاپتہ بچوں اور افراد کے اہلخانہ اس بات پر ناراض ہیں کہ ابھی تک متاثرہ افراد کی لاشیں کیوں نہیں نکالی جا سکیں۔ اس بحری جہاز کے عملے کے تمام زندہ بچ جانے والے 15 ارکان کو مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہونے کے الزام میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔

دریں اثناء غوطہ غور ابھی بھی تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایمرجنسی حکام کے مطابق انہیں یقین ہے کہ باقی ماندہ لاشیں جہاز کے مختلف کمروں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ کچھ لاشیں تیرتے ہوئے دور بہہ گئی ہیں اور اسی وجہ سے تلاش کا دائرہ ء کار ساٹھ کلومیٹر کے قُطر تک پھیلا دیا گیا ہے۔