1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فکسنگ: عمراکمل ایک ولن یا ستم رسیدہ؟

عاصمہ کنڈی
28 اپریل 2020

سٹے بازوں کی دوہری پیشکش کو پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ سے خفیہ رکھنے کے الزام میں عمر اکمل پر کرکٹ کھیلنے کی تین سالہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ طارق سعید کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3bWDU
تصویر: AFP/Getty Images/W. West

''دنیا میں اتنے لوگ آج تک گولی سے نہیں مرے جتنے خوش فہمی میں مارے گئے‘‘

گئے وقتوں کے اداکارآصف خان کا یہ فلمی ڈائیلاگ مجھے عمراکمل کا افسوس ناک انجام دیکھ کر یاد آرہا ہے جو اسی دن سے دیوارپہ لکھا نظرآرہا تھا جب فروری میں پی ایس ایل 5 شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے راتوں راتوں کراچی کلب روڈ ہوٹل سے انہیں بوریا باندھنا پڑا تھا۔

پاکستان کرکٹ کے جن پرستاروں کے دلوں پر پہلے ہی ایسے کئی دکھوں اور محرومیوں کا بوجھ تھا، پی سی بی انضباطی کمیٹی کے چیئرمین اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس میراں چوہان کا یہ فیصلہ سن کر اس میں اوراضافہ ہوگیا۔

یہ قضیہ اس بات کا عین ثبوت ہے کہ پاکستان کرکٹ میں فکسنگ کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو خود پاکستان کرکٹ بورڈ ہے، جس نے کبھی بیل کو دونوں سینگوں سے پکڑنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی اورکچرا قذافی اسٹیڈیم کے قالینوں کے نیچے ہی دبانے کا چلن عام رہا۔ قرنطینہ کے حالیہ دنوں میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں میچ فکسنگ سے متعلق جسٹس قیوم رپورٹ کا بہت چرچا رہا ہے لیکن کافکا جیسی ان کہانیوں کا پہلا باب تو لاہور کی ایک کچی آبادی میں عمر اکمل کے پیدا ہونے سے 11 سال پہلے ہی رقم ہوچکا تھا جب 1979ء کے دورہ بھارت میں ایک بک میکر پاکستانی ٹیم کی ٹور بس میں کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ سفرکرتا رہا۔

عمر اکمل سے پہلا تعارف

مجھے عمراکمل کو پہلی بار فرسٹ کلاس میچ میں کھیلتے دیکھنے کا اتفاق اصغر علی شاہ اسٹیڈیم کراچی میں ہوا تھا۔ یہ دسمبر 2007ء کے جاڑوں کی روشن صبح تھی جب عمر اکمل نے سوئی ناردرن گیس کے لیے محمد حفیظ کے ساتھ پارٹنرشپ شروع کی۔ اس روز ایک 17 سالہ بیٹسمین کی بیٹنگ میں کراچی کی دھوپ سےکہیں زیادہ تمازت تھی اور میزبان باؤلرز کے ساتھ عمر کے سنگدلانہ سلوک کا عالم یہ تھا کہ زیادہ تر گیندیں کٹی پہاڑی کے ارد گرد بنگلوں میں پہنچ رہی تھیں۔ چائے کے وقفہ کے بعد عمراکمل نے چائے کے وقفہ سے پہلے پہلی ڈبل سینچری مکمل کی اور پہلے ہی دن ان کی ٹیم نے 427 رنز بنا لیے۔

یہ اننگز دراصل میرے لیے سابق پاکستانی ٹیسٹ اوپنرعامر ملک کے اس دعویٰ کی تصدیق تھی، جو انہوں نے کچھ سال پہلے فیملی میگزین کےایک انٹرویو میں کیا تھا۔ عامر نے عمرکے بارے میں پیشگوئی کی تھی کہ وہ مستقبل کا سٹار بیٹسمین بننے والا ہے۔

پرل آئی لینڈ میں یونس خان کی حوصلہ افزائی

2009ء کے موسم گرما میں راقم الحروف سیریز کی کوریج کےلیے سری لنکا میں ہی موجود تھا جب محمد عامر کوگال میں ٹیسٹ کیپ دینے کے چند ہفتوں بعد دمبولہ میں عمراکمل کو ون ڈے کیپ ملی۔ یونس خان ان دنوں سخت گیرکپتان بن کر نئے نئے کھلاڑیوں کی ٹیم میں حوصلہ افزائی کررہے تھےجس سے سینئرزکے ساتھ ان کے فاصلے بڑھنے لگے تھے۔ کولمبو ون ڈے میں عمراکمل کی پہلی انٹرنیشنل سینچری ایک دھواں دھاراننگز تھی جس میں دوسرے اینڈ پر موجود یونس خان کی'ٹپس‘ اور مشوروں کا بڑا دخل تھا۔ اس روز عمر اکمل کے سامنے ملنگا اور مرلی بھی ڈیڑھ سال پہلے والے کراچی بلیوز کے باؤلرز لگ رہے تھے۔

اسی برس موسم سرما میں پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دورے پر گئی تو ڈینڈن میں عمر نے 19 سال کی عمرمیں اپنی پہلی ٹیسٹ سینچری بنا لی۔ کسی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ یہی انکی آخری بھی ثابت ہوگی۔ اس روز عمر اکمل کو کریز پرمشورے دینے والا ان کا بڑا بھائی کامران دوسرے اینڈ پر تھا۔

منظرنامہ بدل گیا

پھر سڈنی ٹیسٹ کے ساتھ ہی سارا منظرنامہ بدل گیا تھا۔ میچ فکسنگ کا سایہ پھر پاکستانی کرکٹ کے سرآچکا تھا۔ ٹیم میں اتنا ہی ڈسپلن تھا جتنا خود اس زمانے کے بورڈ آفیشلز میں پایا جاتا تھا۔ دورہ آسٹریلیا کے بعد جن کھلاڑیوں پر جرمانے ہوئے ان میں عمراکمل بھی شامل تھے۔ مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ ہیڈنگلے لیڈیز میں جونہی پاکستان نے آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ میں شکست دی۔ اس وقت کے چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ نے فرط جذبات میں عمراکمل سمیت تمام کھلاڑیوں کے جرمانے معاف کر دیے اور ادا کیے گئے جرمانوں کے چیک ڈریسنگ روم میں آکرخود کھلاڑیوں کو پیش کیے۔ یہی لارڈز ٹیسٹ اورآئندہ کی وارداتوں کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا اور اسی سے عامر اورعمر جیسے نوجوان کرکٹرز کو شہہ ملی۔

اس دورے میں عمر اکمل کو دوسرے اینڈ پر یونس خان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی رہی جن کے خلاف بغاوت میں وہ خود شریک تھے۔ چند ماہ بعد کامران اکمل کے بھی ٹیم سے باہر ہونے سے رہی سہی کسرنکل گئی۔

اب عمر اکمل خود کو بہت زیادہ رعایت دینے لگے تھے۔ پہلے وہ ٹیسٹ ٹیم سے باہر ہوئے پھر دن بدن سڑکوں، بازاروں اورعشرت کدوں میں ان کے لگائے ہوئے چھکوں چوکوں کی جھلکیاں نیوز چینلز پر چلنے لگیں۔

مکی آرتھر سے وقار یونس تک کئیوں نے کئی بار عمر کو ٖجھنجوڑا کہ وہ غفلت سے جاگ جائیں مگرآہ، سب آوازیں بے اثر ہوگئیں اور نیند کے اس متوالے نے کروٹ تک نہ بدلی اور یہاں تک کہ پاکستان ایک اور منفرد ٹیلنٹ سے محروم ہوگیا۔

عمراکمل واقعی ایک سٹار بن چکے تھے لیکن بالی وڈ ہیرو شاہد کپور کے بقول سٹار بننا آسان ہے سٹار رہنا مشکل ہے۔

Asma Kundi
عاصمہ کنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ کنڈی نے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔