1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فيس بک سينسرشپ میں پاکستان سب سے آگے

عاصم سلیم
15 نومبر 2019

فيس بک کی رپورٹ کے مطابق اس نے حکومت پاکستان کی درخواست پر اس سال کے پہلے چھہ ماہ میں پانچ ہزار سے زائد صفحات، پوسٹس اور ديگر مواد بلاک کیا۔ ڈجیٹل حقوق کے کارکنوں کے مطابق یہ رجحان بڑھتی ہوئی انٹرنيٹ سينسرشپ کا ثبوت ہے۔

https://p.dw.com/p/3T781
Journalisten protestieren in Pakistan Pressefreiheit Zensur
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Arbab

فیس بک کی تازہ ٹرانسپيرنسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یہ مواد پاکستان ٹيلی کميونيکيشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی درخواست پر روکا گیا۔ 

فیس بک نے بتایا کہ پچھلے سال کے اواخر کے مقابلے ميں اس سال کے پہلے چھ ماہ دوران حکومت پاکستان کی طرف سے قابل اعتراض مواد کی شکایات ميں تيس فيصد اضافہ ديکھا گيا۔ فیس بک نے سن دو ہزار اٹھارہ کے آخری چھ ماہ کے دوران 4,174 کيسز ميں مواد بلاک کیا جبکہ اس سال کے پہلے چھ ماہ ميں یہ تعداد بڑھ کر 5,690 ہوگئی۔

پی ٹی اے کے نزدیک قابل اعتراض مواد توہين مذہب، عدليہ مخالفت، ہتک عزت اور قومی آزادی کے خلاف بيانات کے زمرے میں تھا۔

فيس بک پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول سوشل میڈیا ویب سائٹ ہے۔ 

SRI LANKA-UNREST-RELIGION-MUSLIM
تصویر: AFP/Getty Images

رپورٹ ميں يہ بھی بتايا گيا کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے صارفين کا ڈيٹا طلب کرنے کے واقعات ميں بھی 5.3 فيصد کا اضافہ نوٹ کيا گيا۔ پچھلے سال کے آخری چھ ماہ ميں حکومت پاکستان نے 1,752 صارفين کے ڈيٹا تک رسائی کی درخواست دی جب کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں يہ تعداد بڑھ کر 1,849 ہو گئی۔

کمپنی نے واضح کيا کہ حکومتوں کی جانب سے انفرادی درخواستوں پر کارروائی فيس بک کے قوانين و ضوابط کے تحت کی جاتی ہے اور پھر حتمی فيصلہ کيا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان ميں ڈيجيٹل میڈیا پر نظر رکھنے والی صحافی رمشا جہانگير کے مطابق  پريشان کن بات یہ ہے کہ فیس بک نے نصف سے زائد کيسز ميں حکومتی درخواستوں پر کارروائی کی اور مواد ہٹايا۔

ڈی ڈبليو کے ايک سوال کے جواب ميں رمشا جہانگير نے کہا، ’’پاکستان ميں حکومت کی طرف سے متنازعہ مواد رپورٹ کيے جانے کا عمل شفاف نہیں۔ عموماً سائبر کرائم قوانين کے سيکشن سينتيس کو بروئے کار ليا جاتا ہے، جس کا تعلق قابل اعتراض مواد سے ہے اور اس ميں وہ تمام چيزيں آتی ہيں، جن کا ذکر پی ٹی اے نے کيا۔ ليکن یہ واضح نہیں کہ جس مواد کو حکومت عدليہ مخالف يا ملکی آزادی کے خلاف تصور کرتی ہے وہ اظہار آزادی کے حقوق سے متصادم ہے یا نہیں۔‘‘

Symbolbild Facebook Blasphemie in Pakistan
تصویر: picture alliance/dpa/epa/R. Khan

رمشا جہانگير کے مطابق پی ٹی اے ايک ريگوليٹری ادارہ ہے اور وہ صرف ’اسٹيک ہولڈرز‘ کی جانب سے شکايات موصول ہونے پر کارروائی کرتا ہے، جن ميں حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے، پوليس، محکمہ داخلہ وغيرہ شامل ہيں۔

فيس بک کو حکومتوں کی جانب سے قابل اعتراض مواد کی شکایتیں بھيجنے ميں امريکا سرفہرست ہے، جہاں سے کمپنی کو مجموعی طور پر 82,461 اکاونٹس کے بارے ميں 50,741 شکایات موصول ہوئيں جبکہ بھارت سے 22,684 درخواستيں موصول ہوئيں۔

رمشا جہانگير نے کہا، ’’ميرے خيال ميں ہو يہ رہا ہے کہ اکثر حکومتيں ڈيجيٹل ميدان ميں اپنا کنٹرول بڑھانا چاہ رہی ہيں۔ ايسے ميں بالخصوص ايسے مواد کو ہدف بنايا جاتا ہے، جو حکومت پر تنقيد کے زمرے ميں آتا ہے۔‘‘ جہانگير نے بھارت کی مثال دی اور بتايا کہ انٹرنيٹ تک رسائی ميں رکاوٹوں کے حوالے سے بھارت سب سے آگے ہے۔ ’’عالمی سطح پر ايسی کوششيں جاری ہيں کہ تلخ حقائق اور تنقيد کو دبا ديا جائے اور عوام تک حقائق نہ پہنچ سکيں۔ يہ ايک بہت ہی پريشان کن رجحان ہے۔‘‘