1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فوجی بغاوت کے حامی نہیں‘، مصری اپوزیشن

امجد علی2 جولائی 2013

صدر محمد مرسی کی جانب سے فوجی مداخلت کا الٹی میٹم مسترد کیے جانے کے بعد مصر کا سیاسی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔ اسی دوران مصر کے بڑے اپوزیشن اتحاد نے بھی واضح کر دیا ہے کہ فوج کی طرف سے بغاوت کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/190JS
تصویر: OZAN KOSE/AFP/Getty Images

کل پیر کو مصری فوج کی جانب سے سامنے آنے والے ایک بیان میں مصری صدر محمد مرسی کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر اگلے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر سڑکوں پر نکلنے والے کئی ملین لوگوں کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو فوج مستقبل کا روڈ میپ تیار کرے گی اور اُس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔

جواب میں کل رات ہی صدر مرسی کی طرف سے کہا گیا کہ ہر اُس بیان کو مسترد کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مصری معاشرے میں ’تقسیم اور گہری‘ ہو جائے اور ’سماجی امن کو نقصان پہنچے‘۔ مرسی کی طرف سے مزید کہا گیا کہ فوج کے اس بیان کے لیے صدر کی طرف سے ضروری منظوری نہیں لی گئی۔ اس صدارتی بیان میں زور دے کر کہا گیا کہ قومی مصالحت کی پالیسی جاری رکھی جائے گی۔

مصر کی سڑکوں پر صدر محمد مرسی کے حامی بھی بڑی تعداد میں نکلے ہوئے ہیں
مصر کی سڑکوں پر صدر محمد مرسی کے حامی بھی بڑی تعداد میں نکلے ہوئے ہیںتصویر: DW/M. Sailer

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آج مرسی نے مسلسل دوسرے روز آرمی چیف السیسی کے ساتھ ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیر اعظم ہشام قندیل بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ اس دوران ہونےوالی بات چیت کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

مرسی کے حامی بھی سڑکوں پر نکل کر عہدہء صدارت پر اُن کی موجودگی کے جائز اور قانونی ہونے کا دفاع کر رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ مرسی کو صدارت سے ہٹانے کا کوئی بھی اقدام بغاوت کے مترادف ہو گا۔

اسی دوران مصر کے بڑے اپوزیشن اتحاد نیشنل سالویشن فرنٹ (NSF) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ کسی ’فوجی بغاوت‘ کا حامی نہیں ہے۔ بیان کے مطابق اتحاد یہ سمجھتا ہے کہ فوج کی طرف سے موجودہ بحران کے حل کے لیے اڑتالیس گھنٹے دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فوج کوئی سیاسی کردار ادا کرنے کی خواہاں ہے۔

مصری اپوزیشن نے بھی کہہ دیا ہے کہ کسی ’فوجی بغاوت‘ کی حمایت نہیں کی جائے گی
مصری اپوزیشن نے بھی کہہ دیا ہے کہ کسی ’فوجی بغاوت‘ کی حمایت نہیں کی جائے گیتصویر: Getty Images

جواب میں فوج نے بھی فوری طور پر واضح کیا ہے کہ ’بغاوت‘ کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی اور یہ کہ آرمی چیف عبدالفتح السیسی کے بیان کا مقصد محض ’تمام فریقوں پر یہ زور دینا تھا کہ وہ موجودہ سیاسی بحران کا جلد از جلد کوئی حل تلاش کریں‘۔

اسی دوران متعدد وُزراء مرسی حکومت کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، جن میں سیاحت، ماحول، سرمایہ کاری اور قانونی امور کے وُزراء کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ کمال امر بھی شامل ہیں۔ اسی طرح مقامی میڈیا کے مطابق صدارتی ترجمان ایہاب فہمی اور کابینہ کے ترجمان علاء الحدیدی بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مرسی کی مشکلات میں مزید اضافہ ایک مصری عدالت کا آج کا وہ فیصلہ ہے، جس میں پبلک پراسیکیوٹر عبدالمجید کی بحالی کا ذکر ہے، جنہیں مرسی نے نومبر میں سبکدوش کر دیا تھا۔

اُدھر وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے مصری ہم منصب کو فون پر زور دے کر کہا ہے کہ اُنہیں تمام مصریوں کی امنگوں پر کان دھرنے چاہییں۔ اوباما نے اُنہیں یہ فون تنزانیہ سے کیا، جو کہ اُن کے دورہء افریقہ کی آخری منزل تھا۔