فرانسیسی صدر کا ایبولا سے متاثرہ گِنی کا دورہ
29 نومبر 2014گنی مغربی افریقہ کے ان تین ممالک میں شامل ہے جو ایبولا وائرس سے بُری طرح متاثر ہیں۔ یہ جان لیوا وائرس اب تک صرف گِنی میں 1200 سے زائد افراد کی ہلاکت کا سبب بن چکا ہے۔ گنی کے ساتھ لائبیریا اور سرا لیون میں بھی ایبولا نے تباہی مچا رکھی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں سے مغربی افریقہ میں پھیلے اس وائرس کے نتیجے میں تقریباﹰ پونے چھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
گِنی کے صدر الفا کونڈے نے ایئرپورٹ پر فرانسوا اولانڈ کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اگر اولانڈ گِنی کا دورہ کر سکتے ہیں تو پھر کوئی بھی وہاں کا دورہ کر سکتا ہے۔
اس موقع پر اولانڈ کا کہنا تھا، ’’ہم پر امید ہیں۔ اس بیماری سے صحت یاب ہونے والوں کے حوالے سے امید موجود ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اس وباء پر قابو پا سکتے ہیں۔۔۔ اہم بات یہ ہے کہ امید ابھی موجود ہے۔‘‘
تاہم فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے اس بات سے بھی متنبہ کیا ہے کہ صحت کے حوالے سے اس بحران کی وجہ سے اس ملک کو الگ تھلگ کرنے سے وہاں معاشی بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے جو سیاسی بحران کی وجہ بن سکتا ہے۔ گِنی نے 1958ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی تھی اور الفا کونڈے اس افریقی ملک کے پہلے جمہوری طور پر منتخب شدہ صدر ہیں۔ گِنی میں آئندہ صدارتی انتخابات اگلے برس ہونا ہیں۔
آٹھ گھنٹے دورانیے کے اس دورے کے دوران اولانڈ نے ایبولا کے علاج کے لیے قائم کردہ ایک سنٹر کا دورہ بھی کیا جسے ڈاکٹروں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ چلا رہی ہے۔ اس موقع پر فرانسیسی صدر نے وہاں خدمات انجام دینے والے فرانسیسی اور گِنی کے طبی عملے کی بہادری کو سراہا اور انہیں مبارکباد پیش کی۔
گِنی اور فرانسیسی صدور نے ایک میٹنگ میں بھی شرکت کی جہاں دونوں ممالک کے حکام نے ایبولا وائرس اور اس سے متاثرہ افراد کے علاج کے حوالے سے تفصیلات پیش کیں۔ کمرہ اس وقت تالیوں سے گونج اٹھا جب ایبولا سے متاثرہ ایک صحت یاب ہونے والے ایک شخص کو وہاں متعارف کرایا گیا۔
فرانسیسی صدر جمعہ کی شب کوناکری سے سینیگال روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے ڈاکار میں ہونے والی فرانکوفون (ایسے ملک جہاں بنیادی زبان فرانسیسی ہے) ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنی ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کے اس اجلاس کے دوران وہ ایبولا کے خلاف بین الاقوامی کوششوں میں تیزی لانے کی اپیل کریں گے۔