1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس میں مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ پر پابندی زیرغور

کشور مصطفیٰ29 جولائی 2016

فرانسیسی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں فرانس میں ہونے والے دہشت گردانہ جہادی حملوں کے تناظر میں وہ ملک میں مساجد کی غیر ملکی مالی امداد پر عبوری پابندی عائد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JYWu
تصویر: cc-by-sa/Cyrilb1881

فرانس کے وزیر اعظم مانوئل فالس نے جمعے کو اس بارے میں اپنا بیان دیتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کے ایک ’نئے ماڈل‘ پر زور دیا۔ فرانس میں ہونے والے پے در پے دہشت گردانہ حملوں اور واقعات کے بعد سے پیرس حکومت اور موجودہ وزراء سخت تنقید کی زد میں ہیں۔ خاص طور سے شمالی فرانس میں منگل چھبیس جولائی کو ایک کلیسا پر ہونے والے حملے کے بعد سے حکومت پر سکیورٹی انتظامات میں کوتاہی سے کام لینے کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ اس دہشت گردانہ کارروائی میں دو عسکریت پسندوں نے ایک کلیسا پر حملہ کر کے کئی افراد کو یرغمال بنا لیا تھا اور حملہ آوروں نے ایک پادری کا گلا بھی کاٹ دیا تھا اور بعد میں وہ خود بھی ایک کمانڈو آپریشن میں مارے گئے تھے۔

Polizeischutz vor Moschee in Paris
فرانس کی مساجد کے ارد گرد پولیس کا پہراتصویر: AP

فرانسیسی روزنامے لے مونڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے مانوئل فالس نے کہا،’’وہ ایک غیر معینہ مدت کے لیے فرانس کی مساجد کی غیر ملکوں سے مالی معاونت پر پابندی کے بارے میں کھُلے ذہن سے غور و خوض کر رہے ہیں۔‘‘ فالس کا کہنا تھا،’’مساجد کی تعمیر کی کسی غیر ملک کی طرف سے مالی معاونت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

فرانس کے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ مساجد کے اماموں کی تربیت فرانس میں ہی ہونی چاہیے کسی اور ملک میں نہیں۔ فالس کے مطابق فرانس کے وزیر داخلہ برنار کازینوا، جن کی ذمہ داریوں میں مذہبی امور کی نگرانی بھی شامل ہے، فرانس کے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کے ’ایک نئے ماڈل‘ کی تشکیل پر کام کر رہے ہیں۔

فرانس میں دو ہفتے سے کم عرصے کے دوران ہونے والے دوسرے جہادی حملے کے بعد ہی سے فرانس کے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ دونوں پر تنقید میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ہی سے مستعفی ہونے کے مطالبات سامنے آنے لگے ہیں۔

Frankreich Moschee in Lille
فرانسیسی شہر لِل میں قائم مسجدتصویر: picture-alliance/dpa/S. Mortagne

فرانس میں مختلف حلقوں میں غصے کی لہر اُس وقت دوڑ گئی تھی جب یہ خبر عام ہوئی کہ حملہ آوروں میں سے ایک 19 سالہ عادل کرمیش، شام کا سفر کرنے کی اپنی دوسری کوشش کے بعد دہشت گردی کے الزام میں مقدمے کی سماعت کا انتظار کرتے ہوئے جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

الیکٹرانک آلات کی مدد سے کرمیش کی نقل و حرکت پر نظر رکھی گئی تھی لیکن اس کے باوجود اُسے ویک ڈے کی صبح گھر سے نکلنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اسی چیز نے اُسے اور اُس کے معاون اور شریک ملزم کو شہر نارمنڈی کے قریب رُوئیں کے مقام پر ایک چرچ میں داخل ہو کر وہاں موجود متعدد افراد کو یرغمال بنانے اور 86 سالہ پادری کا گلا کاٹ دینے کا موقع مل گیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں