1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر ملکی افواج عراق سے نکل جائیں:ایرانی صدر

3 مارچ 2008

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے تاریخی دورہ عراق میں جہاں تجارت، صنعت ، صحت سمیت سات اہم شعبہ جات میں معاہدوں پر دستخط کئے وہیں امریکہ سمیت عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عراق سے نکل جائیں۔ نژاد کا کہنا ہے کہ عالمی افواج کا خطے سے انخلاء پائیدار امن اور سکون کے ناگزیر ہے ۔

https://p.dw.com/p/DYEP
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اپنے دورہ عراق کے دوران اپنے عراقی ہم منصب جلال طالبانی کے ساتھ
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اپنے دورہ عراق کے دوران اپنے عراقی ہم منصب جلال طالبانی کے ساتھتصویر: AP

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ احمدی نژاد کے اس دورے سے نہ صرف دونوں ممالک میں تعاون بڑھے گا بلکہ انتہا پسندی اور تشدد آمیز واقعات کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے دو روزہ دورہ عراق کے دوسرے اور آخری دن صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ سے تباہ حال عراق سے غیر ملکی اور امریکی افواج کے انخلاءسے ملک میں امن پیدا ہو سکتا ہے ، انہوں نے کہا کہ اگر عراق باشندے امریکہ کو ناپسند کرتے ہیں تو اس میں ایران کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس میں غلط امریکی پالیساں ذمہ دار ہیں ۔ احمدی نژاد نے تہران اور بغداد کے مابین سات اہم شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لئے معاہدوں پر دستخط بھی کئے۔

ایک ملین افراد کی ہلاکت کا باعث ایران۔عراق خون ریز جنگ اورایران میں سن1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد کسی بھی ایرانی صدر کا نے پہلی مرتبہ عراق کا دورہ کیا ہے ۔ امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ ایران پروپیگنڈے کا ماہر ہے اس لئے وہ عراقی عوام کو امریکہ کے خلاف مزید بڑھکا سکتا ہے ، ایک امریکی think tank مائیکل روبن نے تو یہ بھی کہا تھاکہ احمدی نژاد کا دورہ عراق، خطے میں امن کی امریکی کوششوں کو سبو تاژ کرنے کے مترادف ہے ۔

اس وقت عراق میں کل ایک لاکھ اٹھاون ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو وہاں امن کے قیام اور ایرانی اثر ووسوخ کے خاتمے کے لئے نبرد آزما ہیں ، واشنگٹن حکومت کا کہنا ہے کہ ایران ، عراق میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے اور شعیہ ملیشیاءکو مضبوط بنا رہا ہے ۔ دوسری طرف ایران نے ہمیشہ ہی ایسے الزامات کی تردید کی ہے اور ایرانی وزارت خارجہ نے بار ہا کہا ہے کہ وہ خطے میں قیام امن کے لئے اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہتا ہے ۔


ایرانی صدر نے اپنے دورہ عراق کے دورا ن امریکہ پر الزام عاید کیا ہے کہ عراق میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو لانے والا امریکہ ہی ہے ۔ انہوں نے کہا آج سے چھ سال پہلے یہاں دہشت گردی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ لیکن جب سے امریکی افواج نے اس زمین پر قدم رکھا تو دہشت گرد بھی آگئے ۔ احمدی نژاد نے مزید کہا یہ سب جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے ۔

دوسری طرف ہفتے کے دن امریکی صدر جورج ڈبلیو بش نے اپنے ایک بیان میں ایران کو خبر دار کیا ہے کہ وہ عراق میں جدید اسلحہ جات کی ترسیل بند کر دے جس سے عراق میں ایرانی تربیت یافتہ شعیہ دہشت گرد امریکہ افواج کو ہلاک کر رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں احمدی نژاد نے امریکی الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر عراقی شہری، امریکہ سے نفرت کرتے ہیں تو اس میں ایران کا کوئی قصور نہیں ہے ۔

احمدی نژاد کے دورہ عراق کے دوران انہیں زبردست پذرائی ملی اور نوری المالکی نے بذات خود عراق معاملات میں تہران حکومت کے تعاون کی تعریف کی ، جیسے امریکی حکام دہشت گرد شعیہ ملیشاءکی تربیت اور قیام امن کی تباہ کاری سے موسوم کرتا ہے ۔ ایرانی صدر نے اپنے اس دورے کو کامیاب قرار دےتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے لئے ترقی اور دوستی کانیاباب کھل گیا ہے ۔

جبکہ دوسری طرف ایران کے جوہری پروگرام سے خائف امریکہ کی کوشش ہے کہ ایران کو پورے خطے میں اکیلا کر دیا جائے اور اس سلسلے میں امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش نے اپنے دورہ مشرق وسطی کے دوران خطے کے تمام ممالک پر زور بھی ڈالا کہ ایران نہ صرف مشرق وسطی بلکہ تمام دنیا کے لئے ایک خطرہ ہے اس لئے تہران جوہری پروگرام کے خاتمے کے لئے مل کر کوششیں کرنا چاہئیں۔

واضح رہے کہ ماضی میں ایران اور عراق کے مابین شدید اختلافات رہے ہیں تاہم عراق میں شعیہ حکومت کے قیام کے بعد شعیہ اکثریتی ملک ایران نے عراق سے دوستی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے ۔ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین دوستی میں مزید اضافہ ہو سکتاہے ۔ صدام حسین کے دور اقتدرمیں عراقی شعیہ وزیر اعظم نوری المالکی اور کئی دیگر شعیہ شخصیات نے ، اُس وقت ایران میں پناہ لی تھی جب صدام حسین نے اہم شعیہ شخصیات کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔ اور اب ان میں سے کئی اہم شخصیات عراق میں اہم سرکاری اور غیر سرکاری عہدوں پر فائز ہیں ۔