غیر سنسر شدہ: مسلم خواتین حقوق نسواں کے بارے میں کیا کہتی ہیں
ناروے کی خاتون ادیبہ بریجیٹی سی ہوئیٹفیلڈ نے اپنی نئی کتاب میں مختلف مسلم خواتین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پردے کے ساتھ یا پردے کے بغیر دونوں صورتوں میں وہ ایک مسلم معاشرے میں اپنے عورت ہونے کو کیسے دیکھتی ہیں۔
مصر میں حقیقی آزادی کی ضرورت
کتاب کا آغاز معروف مصری خاتون ایکٹیوسٹ، ڈاکٹر اور مصنفہ نوال الصداوی سے ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی خواتین اپنے جائز مقام کی جنگ میں اب تک کامیاب کیوں نہیں ہو سکیں، اس کے جواب میں الصداوی کہتی ہیں،’’جو پدرانہ، سماجی اور فوجی نظام ہماری زندگیوں کو طے کرتا ہے، اس میں خواتین کو آزادی نہیں مل سکتی۔‘‘
جلا وطن شامی ماہر نفسیات رفاہ ناشید
شامی ماہر نفسیات رفاہ ناشید کو ستمبر سن 2011 میں خوفزدہ اسد مخالف مظاہرین کی مدد کے لیے میٹنگ بلانے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دو ماہ بعد اُنہیں آزاد تو کر دیا گیا لیکن اب وہ پیرس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ اس کتاب میں کہتی ہیں،’’عرب معاشرے میں تبدیلی کو مسترد کیا جاتا ہے کیوں کہ جو بھیڑ کا حصہ نہیں بنتا اسے ملحد یا معمول کے خلاف تصور کر لیا جاتا ہے۔
لوگوں کا انتخاب جمہوریت ہے
ایرانی خاتون وکیل شیریں عبادی نے اپنی زندگی کا مقصد خواتین، بچوں اور مہاجرین کے حقوق کے لیے جنگ کو بنا لیا ہے۔ سن 2003 میں عبادی کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ وہ ’ ان سنسرڈ‘ میں کہتی ہیں، ’’جمہوریت کسی مشرق یا مغرب کو نہیں جانتی۔ جمہوریت لوگوں کی مرضی کا نام ہے، اس لیے میں جمہوریت کی مختلف صورتوں کو نہیں مانتی۔‘‘
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن
خاتون فلسطینی قانون ساز، اسکالر اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن حنان عشروی اس کتاب میں لکھتی ہیں، ’’یقیناﹰ قبضہ مردوں کا ہے، خاص طور پر فوجی قبضہ ۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ بھی مردوں کا کھڑا کیا ہوا ہے۔ اور ہم خواتین کو اسے ختم کرنا ہے۔‘‘
یمنی مردوں کو خواتین سے خوف کیوں؟
سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کے صنفی مساوات انڈیکس میں آخری نمبر پر آنے والے ملک یمن کی امل باشا خواتین کے حقوق کی پیرو کار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یمن میں خواتین کے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر شرعی قوانین کے ذریعے قدغن لگائی جاتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ باشا کے مطابق مرد خواتین سے اس لیے ڈرتے ہیں کیوں کہ عورتیں امن کی آواز ہیں۔
لیبیا میں امید کی کرن
لیبیا کی حجر شریف اقوام متحدہ کی مشاورتی کمیٹی اور کوفی عنان فاؤنڈیشن کی رکن ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ لیبیا میں خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے دونوں اصناف کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ شریف ’ان سنسرڈ‘ میں کہتی ہیں،’’اگر آپ دیکھیں تو لیبیا میں مائیں اپنے بیٹوں کو جنگ پر جانے کے لیے خود آمادہ کرتی ہیں۔ اگرچہ وہ خود جنگ کا حصہ نہیں ہیں لیکن لیبیا میں جاری پر تشدد کارروائیوں میں حصہ دار ضرور ہیں۔‘‘
اردن میں غیرت کے نام پر قتل
اردن کی رانا حسینی خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور صحافی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اردن کا معاشرہ ہر بات کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتا ہے۔ ریپ کے لیے، ابنارمل بچے پیدا کرنے کے لیے، ہراساں کیے جانے کے لیے اور یہاں تک اُن کے شوہروں کے دوسری خواتین کے ساتھ تعلقات کے لیے بھی عورت ہی کو ذمہ دار مانا جاتا ہے۔‘‘