غزہ بحری قافلے پر حملہ، اسرائیل تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے پر راضی
14 جون 2010غزہ کے لئے امدادی سامان لے جانے والے ایک بحری قافلے پر اسرائیلی فوج نے حملہ کر کے اس قافلے میں شامل افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس حملے کے بعد عالمی دباؤ کے باعث اسرائیلی حکام اس واقعہ کی تحقیقات کروانے پر رضا مند ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ اُس کے فوجیوں نے طاقت کا استعمال اپنے دفاع کے لئے کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے اسرائیلی حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یروشلم اس واقعہ کی غیر جانبدانہ تحقیقات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبس نے کہا:’’ہم اس تحقیقاتی کمیشن کے طریقہء کار یا نتائج کے بارے میں پہلے سے کوئی اندازہ قائم نہیں کریں گے، ہم کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل انتظار کریں گے کہ یہ تحقیقات کروائی جائیں اوراس کے نتائج سامنے آئیں۔‘‘
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اس تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو عوامی سطح پر عام کیا جائے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیا مین نیتن یاہو کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کمیشن کے قیام کے بارے میں حتمی منظوری پیر کو دے دی جائے گی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کمانڈو ایکشن کے دوران اس وقت فائرنگ کی گئی تھی، جب فلسطینیوں کے حامی ترک باشندوں نے خنجروں اورمیٹل راڈز کی مدد سے ان پر حملہ کر دیا تھا۔ اس دوران کم ازکم نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ امدادی قافلے میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے بغیر کسی وجہ کے فائرنگ کی تھی۔
اس تحقیقاتی کمیشن میں تین افراد شامل ہوں گے۔ اس کی سربراہی اسرائیلی سپریم کورٹ کے سابقہ جج یاکوف تِرکل کریں گے۔ اس کے علاوہ نوبیل امن انعام یافتہ آئرش ڈیوڈ ٹِرمبلے اور کینیڈا کے سابقہ فوجی پراسیکیوٹر کین واٹکن بھی اس کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ یہ دونوں غیر ملکی ماہرین صرف مبصر کے طور پر اس کمیشن کا حصہ ہوں گے اور یاکوف تِرکل کے کام میں مداخلت نہیں کر سکیں گے۔
دریں اثناء اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں امدادی سامان کی آڑ میں اسلحہ کی اسمگلنگ روکنے کے لئے عالمی برادری سے اپنے مذاکرات جاری رکھیں گے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی