1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزّہ میں جنگ بندی کے لیے جرمنی کی کوششیں

9 جنوری 2009

جرمن وزیر خارجہ شٹائن مائر نے مصری صدر حسنی مبارک سے قائرہ میں ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/GVLF
جرمن وزیرِ خارجہ اشٹائن مائر اور مصری صدر حسنی مبارکتصویر: AP

اپنے دو روزہ دورہ مشرق وسطی کے دوران جرمن وزیر خارجہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے علاقائی رہنماوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ شٹائن مائر فلسطینی صدر محمود عباس اور عرب لیگ کے صدر امر موسی سے بھی ملاقات کریں گے۔ بعد ازاں وہ اسرائیل بھی جائیں گے۔ قاہرہ میں جرمن وزیر خارجہ نے کہا: غزہ کی موجودہ انسانی صورتحال اس بات کا تقاضا کر تی ہے کہ تمام یورپی اور عالمی برادری غزہ میں پائیدار، مستقل اور موثر جنگ بندی کے لیے کوششیں کرے۔‘‘

اس سے قبل جرمن حکام نے کہا تھا کہ غزہ پٹی میں جرمن افواج کی تعیناتی بین الاقوامی امن مشن کے تحت ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں جرمن وفاقی وزیر برائے خارجہ امور Gernot Erler نے اپنے نشریاتی انٹرویو میں کہا کہ تاہم اس کے لئے فلسطین اور اسرائیل کوباضابطہ درخواست کرنا ہو گی۔

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فائربندی کے لئے ہفتے کو ہونے والے ایک اجلاس میں حماس کا تین رکی وفد بھی شرکت کر رہا ہے۔ فریقن کے درمیان حالیہ لڑائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس حوالے سے منعقدہ کسی اجلاس میں حماس کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے مصر کی اسلامی تحریک کے نائب سربراہ موسیٰ ابو مارزوک نے کہا ہے کہ حماس کا وفد مصری صدر حسنی مبارک کی جانب سے پیش کئے گئے تین نکاتی منصوبے کی وضاحت چاہتا ہے۔

Gaza Angriff Israel 2009
اسرائیل نے سلامتی کاؤنسل کی جنگ بندی کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے غزّہ میں حملے جاری رکھےہیںتصویر: AP

اسرائیل اور حماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائر بندی کی قرارداد پہلے ہی مسترد کر دی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ حماس کی جانب سے راکٹ حملے جاری ہیں، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے فیصلے پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ حماس نے بھی فائر بندی کی اس قرار داد میں عدم دلچسپی ظاہر کی ہے۔ حماس کے ترجمان کے مطابق قرار داد سے پہلے ان سے مشورہ نہیں کیا گیا جبکہ ان کے مطالبے بھی پورے نہیں کئے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ فلسطینی شہریوں کے مفادات کو سمجھنے میں ناکام ہو گئی ہے اور قرار داد کا یہ مطلب نہیں کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ مصری تنظیم اسلامی تحریک نے بھی اقوام متحدہ کی یہ قرار داد مسترد کی ہے۔

Israel Palästinenser Gaza Angriff auf Gefängnis Gefangener
اقوام متحدہ اور فلسطینی طبی ذرائع کے مطابق اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں سے بیشتر عام شہری ہیںِتصویر: AP


دوسری جانب مختلف ممالک کی جانب سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کی کوششیں جاری ہیں۔ جرمنی نے بھی اس حوالے سے کوششیں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ برلن میں ایک حکومتی ترجمان کے مطابق وزیر خارجہ فرانک والٹر شنٹائن مائر ہفتے کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں اسرائیلی اور مصری حکام سے ملاقات کریں گے۔ جرمن دفتر خارجہ میں اسٹیٹ منسٹر گیرنورٹ ایرلر نے کہا: "غزہ می‍ں فوری فائربندی، شہریوں پر حملوں کی روک تھام اور غزہ پٹی سے اسرائیلی فوج کا انخلا، یہ سب جرمنی کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے عین مطابق ہے۔ ہم گزشتہ کئی دنوں سے انہی خطوط پر مختلف یورپی ممالک کے ساتھ فائربندی کی کوششوں کے سلسلے میں مذاکرات کر رہے ہیں۔"

اقوام متحدہ اور فلسطینی طبی ذرائع کے مطابق اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں سے بیشتر عام شہری ہیںِ۔ غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی مسلسل خبروں کے رد عمل میں جنیوا میں اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق Navi Pillay نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگی جرائم کی آزادانہ تفتیش ہونی چاہئے۔ بش انتظامیہ نے بھی جمعے کو ایک بیان میں غزہ میں انسانی بحران اور عام شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعرات کو اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی کو فوری طور پر رکوانے کے لئے ایک قرار داد منظور کی تھی۔ تاہم اس قرار داد کے لئے امریکہ نے ووٹ نہیں دیا۔

Gaza Angriff Israel
اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ حماس کی جانب سے راکٹ حملے جاری ہیں، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے فیصلے پر عمل نہیں کیا جا سکتاتصویر: AP


اسرائیل نے غزہ پٹی پر حملوں کا آغاز 27 دسمبر کو کیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائیاں اسرائیلی علاقوں پر حماس کی جانب سے کئے جانے والے راکٹ حملوں کے جواب میں کئے جا رہے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن حملوں کے باوجود اسرائیلی علاقوں پر حماس کی جانب سے راکٹ حملے بھی جاری ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد جمعرات کو ایسے وقت سامنے آئی جب اقوام متحدہ کے ایک امدادی ادارے نے غزہ کے لئے اشیائے خوردونوش کی فراہمی بند کر دی اور ریڈ کراس نے اسرائیل پر غزہ کے لئے دواؤں کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا۔